مجھے سب سے پہلے اساتذہ سے کہنا ہے کہ مجھے آپ کے جھوٹ بولنے سے بہت تکلیف ہوئی، بہت دُکھ پہنچا۔ اگر ہمارے اساتذہ ہی جھوٹ بولیں گے تو ہم اپنے بچوں سے سچ کی توقع کیسے رکھیں گے۔میرے اساتذہ جانتے ہیں کہ میں پرائمری سکولوں کی پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے بارے بات کر رہا ہوں جسے وہ پرائیویٹائزیشن کا نام دے کر عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔نجکاری کے تین بڑے مظاہر ہیں پہلا یہ کہ زمینیں، عمارتیں اور سامان حکومتی ملکیت نہ رہے، دوسرا یہ کہ حکومتی ملازم اساتذہ کو کسی پرائیویٹ کمپنی یا این جی او کے حوالے کر دیا جائے اور تیسرا یہ کہ ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے مفت تعلیم کاحق چھین کے ان سے فیس وصولی شروع کر دی جائے۔ اساتذہ جانتے ہیں کہ ان تینوں میں سے ایک بھی کام نہیں ہو رہا۔
پیارے قارئین!ہو یہ رہا ہے کہ پنجاب بھر میں تیرہ ہزار ایسے پرائمری سکول ہیں جن میں کوئی ٹیچر نہیں، ایک ٹیچر ہے یا دو ہیں۔ ظاہر ہے کہ پانچ، چھ کلاسز کو پڑھانے کو یہ نہیں پڑھا سکتے۔ بہت سارے پوچھتے ہیں کہ نوٹیچر کا کیا مطلب ہے۔ یہ کیسا سکول ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب ہے کہ اس سکول میں ایک بھی ٹیچر تعینات نہیں مگر کسی دوسرے سکول سے کسی ٹیچر کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے کہ وہاں جا کے بچوں کو پڑھائے۔ہماری اساتذہ تنظیموں کے دئیے ہوئے اعداد وشمار کے مطابق پنجاب میں سوا لاکھ اساتذہ کی کمی ہے اور اس میں بڑا اضافہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہوا جب ایک بھی ٹیچر بھرتی نہیں کیا گیا۔ اس طرح وہ ہزاروں یا لاکھوں بے روزگا ر رہ گئے جنہوں نے ایم اے، ایم ایڈ تک کیا کہ وہ ٹیچنگ کو اپنا کیرئیر بنائیں گے۔ ہماری اساتذہ تنظیمیں کہتی ہیں کہ حل سادہ ہے، سکولوں کو ٹیچرز دئیے جائیں اور اس کا جواب مسلم لیگ نون ٹیچرز ونگ کے چیف کوارڈینیٹر سرمزمل محمود یہ دیتے ہیں کہ ہم سکولوں کو ٹیچرز نہیں بلکہ سکول ہی ٹیچرز کو دے رہے ہیں۔ یہ ایک خوبصورت اور شاندار جواب ہے۔ جب آکسفورڈ سے فارغ التحصیل رانا سکندر حیات نے وزارت تعلیم سنبھالی تھی تو انہوں نے ٹیچرز کے ساتھ باقاعدہ پنچائتیں لگائی تھیں۔ میرے سوالوں پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نیا نظام لے کر آ رہے ہیں۔اس نظام میں ایک ایم اے اور دو بی اے نوجوانوں کے گروپ دعوت دی جا رہی ہے کہ وہ اوپر بتائے ہوئے تیرہ ہزار سکولوں میں سے ایک کی ذمے داری سنبھال لیں۔ حکومت پیف اور پیما کے ماڈل کے مطابق وہاں داخل ہر بچے کے بدلے انہیں ساڑھے چھ سو روپے فیس دے گی۔ وہ جتنے بچے بڑھاتے چلے جائیں گے اتنی ہی وصولی بڑھتی چلی جائے گی۔ اس سے ایک تو سکولوں میں ٹیچرز کی کمی پوری ہوجائے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آوٹ آف سکول کروڑوں بچوں کے سکولوں میں ا ٓنے کی راہ ہموار ہوجائے گی کیونکہ یہی ان کاسب سے بڑا ٹارگٹ ہو گا کہ بچے سکول میں لاؤ۔ حکومتی عمائدین کاکہنا ہے کہ پہلے یہ خیال تھا کہ این جی اوز کو سکول دئیے جائیں مگر اب بدھ کے روز تک تین نوجوان مل کر سکول کے لئے اپلائی کرسکتے ہیں جو منتخب کرنے والوں کی پہلی ترجیح ہوں گے۔
میں جانتاہوں اور مانتا بھی ہوں کہ اساتذہ کا یہ مطالبہ اخلاقی اور قانونی طور پر درست ہے کہ نت نئے تجربات کرنے کی بجائے سکولوں میں ٹیچرز کی تعداد پوری کی جائے۔ ان سے غیر تدریسی ڈیوٹیاں نہ لی جائیں مگر میں عملی طور پر یہ بھی جانتا ہوں کہ وزیر تعلیم میاں مجتبیٰ شجاع الرحمان رہے ہوں یا رانا مشہود احمد خان جیسا کائیاں سیاستدان یا ان کے بعد مراد راس کا نامراد دور رہا ہو کبھی ٹیچر ز کی تعداد پوری نہیں ہوسکی بلکہ ظلم تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی ادوار سے پہلے جو چودہ ہزا رایجوکیٹرز کنٹریکٹ پر رکھے گئے تھے وہ سب کے سب آج تک کنٹریکٹ پر ہیں اور کئی تو بغیر پکے ہوئے فوت بھی ہوچکے۔ یہ ظلم ہے۔ میں یہ بھی جانتا اور مانتا ہوں کہ تعداد پوری ہونے والا مطالبہ مالی مشکلات کی وجہ سے نہ پہلے پورا ہو سکا نہ اب ہو سکے گا سو ہمیں متبادل منصوبہ بندی کرنا پڑے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ رانا لیاقت ہوں یا کاشف شہزاد، عبدالوحید یوسفی ہوں یا کوئی بھی دوسرے رہنما، یہ ثابت کریں کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا یہ منصوبہ غلط ہے، نقصان دہ ہے بلکہ ہمارے پاس تو اعداد و شمار موجود ہیں کہ ا س سے پہلے جو سکول پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر گئے وہاں ہزاروں کی تعداد میں واٹر کولر اور باتھ رو م تو ایک طرف رہے دس ہزار نئے کمرے بن گئے۔ اس سے تین ٹیچرز کا اپنا کاروبار بھی شروع ہوگا اور وہ تعداد پوری کرنے کے لئے مزید ٹیچرز بھی بھرتی کریں گے۔ ہمارے اساتذہ رہنما کہتے ہیں کہ وہاں موجود ٹیچرز کو فنڈز دئیے جائیں مگر میرے خیال میں فکس تنخواہ کے ساتھ سرکاری ملازم وہ کاروباری جوش و جذبہ نہیں دکھا سکتے جس کی توقع کسی بزنس ماڈل میں رکھی جا سکتی ہے۔ہم
اپنے نوجوانوں کے ساتھ مل کر اپنے سکولوں میں ا یک انقلاب برپا کر سکتے ہیں اگر حکومت ایک فول پروف سسٹم بنانے میں کامیاب ہوجائے۔
اب یہاں میرے مخاطب اساتذہ کی بجائے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور وزیر تعلیم رانا سکندر حیات ہیں۔ کچھ تحفظات موجود ہیں جیسے یہ کہ حکومت کی معمول کی ادائیگیاں ہمیشہ تاخیر سے بھی ہوتی ہے اور کم بھی ہوتی ہیں۔ ایسے میں تین نوجوان کئی کئی ماہ تک سکول چلانے کے لئے فنڈز کہاں سے لائیں گے کیونکہ پیف اور پیما میں ادائیگیوں کا طریقہ کار شرمناک حد تک غلط رہا ہے اور میں نے رمضان کی حبس والی دوپہروں میں اس پر احتجاجی مظاہرے دیکھے ہیں۔د وسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ تین ناتجربہ کار لوگوں کو سکول دے دیں گے اور وہاں مالی مسائل بھی ہوں گے تو کیا وہ بھاگ نہیں جائیں گے۔ ریکارڈ بتاتا ہے کہ پہلے بھی ایسے سکول واپس ہوئے اور این جی اوز کو دینے پڑے جن کے پاس وسائل کی فراہمی کا متبادل طریقہ کار ہوتا ہے۔ تیسرا یہ کہ آپ ایک بچے کا ساڑھے چھ سو روپے دے رہے ہیں جو ہرگز، ہرگز مناسب نہیں جبکہ حکومت خود ایک بچے پر اٹھائیس سو روپے خرچ کر کے بھی مناسب نتائج نہیں لے پا رہی تو کیا یہ ادائیگی کم از کم ہزار، بارہ سو نہیں ہونی چاہئے تاکہ یہ ماڈل کامیاب ہو۔ حکومت کوپیف اور پیما کے پیسے بھی اسی طرح بڑھانے چاہئیں کیونکہ اگر پیسے نہ بڑھے تو ٹیچرز کوکسی بھی طور آٹھ، دس ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں دی جا سکے گی جو شرمناک ہے اور آگے بھی ہو گی۔ یہ بزنس ماڈل اسی وقت کامیاب ہوگا جب سٹوڈنٹس کی تعداد کسی بھی ایک سکول میں تین سو کے لگ بھگ ہو گی لیکن جو دو، دو کمروں کے سکول ہیں وہاں تین سو سٹوڈنٹس کس طرح آ سکیں گے کہ پہلے وہاں کمرے بنانے پڑیں گے۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ یہ منصوبہ شاندار ہے مگرسخت مانیٹرنگ، سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور خامیوں کو دور کرناضروری ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.