ملک کو درپیش مسائل میں سب سے سنجیدہ مسئلہ اعتدال پسندی کا فقدان اور انتہا پسندی کی بہتات ہے۔ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ ہر فرقے اور نظریے کے ماننے والوں کی تمام کاوشوں کا محور دوسرے فرقے، دوسرے نظریے اور دوسرے خیالات کے حاملین کو ناحق باطل اور گمراہ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح امن کے مذہب کے متعلق یہ گروہی نقطہ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہو جاتا ہے۔ اس منفی سوچ نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ آج امتِ مسلمہ مصائب کا شکار ہے، ان کی معاشی، تہذیبی، تمدنی، سماجی، تجارتی پوزیشن آزمائش کا شکار ہے، اسلامی آثار و باقیات اپنا نشان کھوتے جا رہے ہیں، مساجد کا انہدام، مذہبی حقوق کی پامالی، نمازوں، اذانوں اور روزوں پر پابندی، اسلامو فوبیا، الزام تراشیاں، مجرمانہ سازشیں، انقلاب اور انصاف کے نام پر مسلم ممالک پر قبضے، یہ سب اسلام دشمن طاقتوں کے کھیل ہیں جو ایک زمانے سے مسلسل کھیلے جا رہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں اسلام مخالف قوتیں اسلام جیسے آفاقی اور عالمی دین کے خلاف عام لوگوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانے کا کوئی موقع جانے نہیں دینا چاہتیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے اور حرکت و عمل کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہر شعبے میں جو قیادت ابھر رہی ہے اور ملک کی پالیسی سازی جس رخ پر اور جس ذہن سے کی جا رہی ہے اس میں دینی تعلیم کے اثرات بڑے ہی معمولی بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بڑی جستجو سے تلاش کرنا پڑتا ہے کہ کہاں کس رخ پر دینی یا اخلاقی تصورات کی جھلک موجود ہے جب کہ اس امت کی یہ تمنا اور خواہش ہے کہ ان حقیقی علمی روایات کی بازیافت کی جائے جو ہمارے ملی عروج کا سبب بنی تھیں۔ دینی تعلیم کے یہ منبع وہ منصبی کردار ادا کس طرح کر سکتے ہیں جس کے ذمہ دار اور مستحق ہیں اور جس کو اختیار کیے بغیر یہ امت کبھی صحیح رخ پر ترقی نہیں کر سکتی ہے۔ یہ دراصل وہ سوال ہے جو اس وقت ہمارے زیرِ غور ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ جائزہ زیادہ سے زیادہ معروضی انداز میں لینا ہے تا کہ حقائق جیسے بھی ہیں ان کو متعین کر سکیں اور پھر جس منزل کی طرف ہمیں جانا ہے اس کے درمیانی فاصلے کا ادراک کریں اور یہ سوچیں کہ اس خلیج کو کس طرح پاٹا جا سکتا ہے۔ اس کے بہت سے پس منظر ہو سکتے ہیں جن پر گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن اس میں پہلی چیز جس کا آغاز ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے موجودہ دینی تعلیمی نظام اپنے زیرِ تربیت افراد کی صلاحیتوں اور مزاج میں مثبت تغیر پیدا کرے تا کہ وہ ایک ایسا کردار ادا کر سکیں جو انہیں ادا کرنا چاہیے لیکن ادا کر نہیں پا رہے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ دنیا کا اجتماعی نظام بدل چکا ہے ایک بالکل نیا ماحول وجود میں آ چکا ہے۔ اس طرح ایک نیا تعلیمی نظام بلکہ ایک نئی معاشرت، نئی سیاست اور نئی معیشت تشکیل پا چکی ہے۔ نتیجہ کے طور پر یہ دنیا کے وہ مسائل ہیں جن سے ہمارا واسطہ پڑ رہا ہے جب تک اس نظامِ تمدن کو مجموعی طور پر نہ سمجھا جائے گا اسے بدلنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس اعتبار سے یہ توقع بالکل بجا ہے کہ علماء کرام جو بھی نظام تشکیل دیں اس میں اس ضرورت اور تعلیمی روایت کو ملحوظ رکھیں جس کے نتیجے میں ان کا نظامِ تعلیم ایک طرف علماء کرام پیدا کرے وہاں دوسری جانب زندگی کے دیگر شعبوں کو بھی متاثر کرے۔ قومی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایسے افراد بھی تیار کرنے چاہیے جو شریعت اور دوسرے قوانین کی تشریح اور تعبیر کر سکیں۔ اسی طرح اس وقت دو متوازی نظام ایک دینی تعلیم کے نظام اور دوسرا جدید تعلیم کے نظام کا مسئلہ ہے۔ ان دونوں کو کس طرح ایک دوسرے کے قریب لایا جائے کیا ان کے انضمام کی کوئی تدریجی پالیسی اختیار کی جائے جس کے تحت ایک خاص مدت میں یہ دونوں نظام مل جائیں، پھر جو نیا نظام ہو وہ دینی اور دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرے۔ ابتدا میں ان دونوں میں کچھ اصلاحات کی جائیں جس سے کوئی ایسا راستہ بن سکے جو آگے چل کر تعلیم کا ایک نیا ماڈل تیار ہو سکے۔
ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو غیر مسلموں تک اسلامی تعلیمات کو اس انداز سے پہنچائیں کہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں وہ دور ہو سکیں۔ آج کی دنیا بدل چکی ہے اس کے مفروضات اور مسلمات تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس کے تصورات میں زمین آسمان کا فرق آ گیا ہے، طرزِ تفکر بالکل دوسرا ہو چکا ہے۔ اس کے مسائل دوسرے ہو گئے ہیں، اس کی طاقتوں میں نوعی فرق آ گیا ہے، اس نے پرانے ہتھیار بدل ڈالے ہیں۔ سادہ لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا اور اس کا مزاج کلیتاً بدل گیا ہے لہٰذا اگر آج ہمیں اس کے سامنے اسلام کی ابدی صداقت کا پیغام پہنچانا ہے تو پہلے سے مختلف زبان استعمال کرنا پڑے گی اور دنیا کے نئے مسائل کے لیے ہمیں اس اسلام کو نئے زاویہ نظر سے دیکھنا پڑے گا۔ اسلام جس طرح ایک فکری نظام رکھتا ہے اسی طرح ایک عملی نظام رکھتا ہے اور اس کا یہ فکری اور عملی نظامِ زندگی اور اس کے تصورات کے ہر ہر شعبہ پر حاوی ہے۔ اسلام کا دعویٰ ہے کہ وہ ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے اس میں دنیا کی تمام ضرورتوں کی تکمیل ہے اس کا نظام ہر دور کے پیچیدہ مسائل کا حل ہے اور یہ کہ وہ ایک مکمل اور عالمگیر دین ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے معاشرہ کی ذہنیتوں سے ان کے طرزِ تفکر اور ان علوم و فنون سے جن کی واقفیت روزمرہ کے تجربوں اور مشاہدوں نے ثابت کر دی ہے یا ان کے متعلق ایسا یقین کیا جاتا ہے نہ واقف ہوں بلکہ ان میں مہارت نہ رکھتے ہوں اور تاوقتیکہ ہمیں دنیا کے موجودہ مسائل کا علم نہ ہو اور مختلف قسم کے سیاسی، اقتصادی، معاشرتی نظاموں پر گہری نظر نہ ہو جب تک ملک کی انتظامی اور قانونی مشین میں ہماری حیثیت اثر انداز پرزوں کی نہ ہو اور ساتھ ساتھ اسلام پر بھی ہر ہر زاویہ نظر سے دیکھنے کی استعداد نہ ہو تو ہم اس کے نظام کو بروئے کار لانے میں اپنے فرض سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے اس امت میں علمائے کرام کی وہی حیثیت ہے جو کسی ذی روح جسم میں دھڑکتے ہوئے دل کی ہے۔ ان ہی کی جدو جہد ہے کہ آج مسلمان اسلامی شناخت کے ساتھ باقی ہیں اور ان میں دینی شعور و آگاہی پائی جاتی ہے۔ اگر وہ دین کی خدمت میں مصروف نہ ہوتے تو آج مسلمانوں کا دین کے ساتھ باقی رہنا مشکل ہو جاتا لیکن اس تلخ حقیقت کا بھی ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ جس تیزی اور فکر مندی کے ساتھ اصلاح کا کام ہونا چاہیے اور جس طرح معاشرے سے منکرات کو دور کرنا چاہیے وہ نہیں ہو رہا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج سماجی برائیاں عام ہیں۔ اس کے باوجود کہ اہلِ علم کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور ہر جگہ دینی اداروں کی کثرت ہے بے دینی اور بے راہ روی بڑھتی جا رہی ہے، علماء کے تناسب سے عوام میں خیر و صلاح کا رجحان پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ علماء اور عوام میں بڑھتا ہوا فاصلہ ہے، اہلِ علم اور مذہبی قائدین کے مختلف طبقات نے اپنا اپنا دائرہ کار متعین کر لیا ہے جس سے باہر ان کی کوئی سرگرمی پائی نہیں جاتی ہے۔
اہلِ علم کا بڑا مقصد مسلمانوں کی رہنمائی ان کی اصلاح اور تزکیہ ہے اور اس کے لیے ان سے رابطہ ضروری ہے، رابطہ جتنا مضبوط ہو گا اس قدر عوام ان سے فیض یاب ہوں گے۔ جو لوگ مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں انہیں منبر و محراب کی شکل میں اللہ نے انہیں بڑی قوت دی ہے جو چاہنے کے باوجود بھی اچھے اچھوں کو حاصل نہیں ہے سارے مقتدی ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں لیکن عام طور پر اس اہم منصب کے ذمہ داران بھی لوگوں سے کٹے کٹے رہتے ہیں، امام اور مقتدیوں میںمستحکم رابطہ نہیں ہو پاتا۔ ان کی ساری سرگرمیاں امامت کی حد تک محدود رہتی ہیں۔ آج اگر علماء کا عوام سے رابطہ مضبوط ہوتا تو علم کی افادیت بڑھ جاتی اور معاشرے کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ اس لیے علماء کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مساجد اور مدارس تک محدود رکھنے کے بجائے عوام سے تعلقات استوار کریں۔
تبصرے بند ہیں.