کھلی کھڑکی بند ہوئی

15

ایران کے صدر عزت مآب ابراہیم رئیسی پاکستان کا تین روزہ دورہ ختم کرنے کے بعد یہاں سے رخصت ہوئے، پاکستان میں ان کا پُرتپاک استقبال ہوا انہیں انتہائی گرم جوشی کے ساتھ الوداع کہا گیا، ہم بس یہی کر سکتے ہیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی روایتی مہمان نوازی کے مطابق غیرملکی معزز مہمانوں کو اہلیان لاہور کی طرف سے تاریخی شالارمار باغ میں استقبالیہ ضرور دیا جاتا ہے لیکن اب گزشتہ چند برس سے یہ روایات صرف کاغذوں میں زندہ ہیں اب تمام استقبالیے بند کمروں میں ہوتے ہیں وجہ دہشت گردی کی لہر بتائی جاتی ہے۔ جو عرصہ دراز سے موجود ہے اور ختم ہونے میں نہیں آ رہی، صدر ایران کے پاکستان تشریف لانے سے قبل ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں بند ہوئیں جن کا مقصد دنیا بھر میں پاکستان کو غیرمحفوظ ثابت کرنا ہے، ان کارروائیوں کو سرحد کے اندر اور سرحد کے پار پاکستان دشمن عناصر کی مدد حاصل ہے، دہشت گرد تنظیموں کا ایک ہدف یہ بھی تھا کہ صدر ایران کا دورہ پاکستان ملتوی ہو جائے انہیں اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی ہے ہمارے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے۔

جناب ابراہیم رئیسی صدرِ ایران کے دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جو اٹھائیس نکات پر مشتمل ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی سرحدوں کا احترام، دہشت گردوںکے خلاف کارروائی، مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے وفود کے تبادلے اور دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کو آئندہ پانچ برس میں دس ارب ڈالر تک لے جانے کی بات کے علاوہ فلسطین میں جاری اسرائیلی ظلم و ستم کی مذمت شامل ہے کچھ ایم او یوز پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔ ان کے تحت اگر آئندہ کوئی مشترکہ ڈرامہ سیریل یا ثقافتی پروگرام کی تیاری نظر آئے تو قوم حیران نہ ہو ایسے کاموں میں ہم اپنی مثال آپ ہیں، گزشتہ حکومت کے دور میں اگر حکومت ترکی کے کسی کام سے ہم متاثر نظر آئے تو وہ ان کا تیار کردہ تاریخی ڈرامہ ”ارطغرل غازی“ تھا، یہ ایسا ڈرامہ تھا جس سے عوام اور حکومت یکساں متاثر تھے حرم کی حسینائیں تو جہ کا زیادہ مرکز تھیں ہمارے ٹھرک خوب پورے ہوئے سابق وزیراعظم خان تو اس ڈرامے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ڈرامے میں کام کرنے والوں کو شرف ملاقات بخشا اور وزارت اطلاعات کو ہدایات جاری کیں کہ ترکی کے تعاون سے ڈرامے اور فلمیں بنائی جائیں۔ جناب خان کا مسئلہ یہ تھا اور اب بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کبھی ٹیپو سلطان کے روپ میں دیکھتے ہیں جن کے ساتھیوں نے ان سے غداری کی کبھی وہ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کی روح کو اپنے بدن میں حلول پاتے تھے اور خیال کرتے تھے جس طرح شہنشاہ بابر نے ایک نئے ہندوستان کی بنیاد رکھی تھی وہ نئے پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں، وہ یقینا ایسا کر سکتے تھے اگر وہ اپنے بنائے اصولوں پر قائم رہتے جن میں میرٹ، دیانتداری، حق گوئی، سادگی اختیار کرنا، پروٹوکول کا خاتمہ، دوسری شہریت کو ختم کرنا اور کشکول لے کر بھیک نہ مانگنا جیسے قابل ذکر اصول شامل تھے، ان کی ناکامی کی بڑی وجہ ان اصولوں سے انحراف ہی تھا وہ تین برس ار طغرل بھی بنے رہے۔ جناب ابراہیم رئیسی صدر ایران کے دورہ پاکستان کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ روح سے خالی نظر آتا ہے یہ میری توقع کے عین مطابق ہے، اس فسانے میں وہ سب کچھ شامل ہے جو عرصہ دراز پرانا ہے دنیا بھر کی نظریں اور بالخصوص اہل پاکستان کی نظریں جن دو اہم معاملات پرتھیں وہ دونوں اس مشترکہ اعلامیے میں نظر نہیں آتے، صدر آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں قریباً پندرہ برس قبل گیس پائپ لائن کا ایران سے معاہدہ کیا تھا ان کے بعد کسی حکومت نے اس پر پیش رفت نہ کی حتیٰ کہ وقت آ گیا کہ ایران اپنے حق کے لئے عالمی عدالت انصاف کا رخ کر لے لیکن اس نے پاکستان کی محبت میں ایسا کرنے سے گریز کیا یہ کیس سیدھا سادا تھا پاکستان کو معاہدے کی خلاف ورزی پر کروڑوں ڈالر جرمانہ ہو سکتا ہے ایران کی مہربانی اس نے ہمیں رسوا نہ کیا جبکہ ریکوڈک منصوبے میں ہمارے خلاف ایک کمپنی گئی اس نے مقدمہ جیت لیا ہمیں کروڑوں ڈالر جرمانہ ہوا ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا۔

حکومت پاکستان خوب جانتی ہے کہ گیس پائپ لائن منصوبہ ایران سے زیادہ پاکستان کے لئے ضروری ہے یہ پٹرول کی نسبت توانائی کا سستا منصوبہ ہے لیکن ہم امریکی دبائو کے تحت اس منصوبے پر قدم آگے نہیں بڑھاتے۔ ایران نے پاکستان کو ایک سے زائد مرتبہ پیشکش کی ہے کہ وہ فقط تین ماہ میں حکومت پاکستان اور اہلیان پاکستان کے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں، پاکستان اس کے لئے صرف حوصلہ اور ارادہ تو کرے ہم ایرانی صدر کے دورہ پاکستان سے کچھ حاصل نہیں کر سکے۔ پاکستان کے تمام مسائل توانائی سے جڑے ہیں اگر ہم ایران سے گیس اور سستا پٹرول حاصل کرتے ہیں تو پاکستان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہم پر قرضوں کے انبار بھی ختم ہو سکتے ہیں مگر افسوس ہم گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کرنا چاہتے ہیں نہ سستا پٹرول خرید کر ملک کے مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میڈیا میں اس حوالے سے تنقید شروع ہوئی تو خواجہ آصف صاحب وفاقی وزیر محترم نے ایک بیان داغا کہ گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے کچھ اشارے ملے ہیں، اگر واقعی ایسا کچھ تھا تو مشترکہ اعلامیے میں اسے شامل کر دیتے، ہم کب تک گونگے بہرے بن کر زندہ رہیں گے اور اشاروں پر لگے رہیں گے اس کا جواب حکومت کے پاس ہے جو اس سوال پر خاموش رہے گی۔ ایران یا پاکستان نابالغ دوشیزائیں نہیں ہیں جو دل کی بات اشاروں میں اس لئے کرتی ہیں کہ کوئی سن نہ لے کوئی دیکھ نہ لے دونوں ذمہ دار ملک میں فرق فقط اتنا ہے ایران ایک آزاد خودمختار ملک ہے جو اپنے مفادات اور سالمیت پر کبھی سودا نہیں کرتا جبکہ ہمارا طرز عمل اس کے خلاف ہے، دوسری طرف ہمسائے کو دیکھیں بھارت خوب جانتا ہے کہ ایران سے تجارت امریکہ اور یورپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن وہ اس مخالفت کے باوجود ایرانی پٹرول کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وہ ایران کے ساتھ ساتھ سعودی عرب سے بھی پٹرول خریدتا ہے لاکھوں کی تعداد میں بھارتی ماہرین سعودی عرب میں خدمات انجام دے رہے ہیں بھارتی وزیراعظم کو سعودی عرب کے دورے پر سب سے بڑا شہری اعزاز بھی دیا جاتا ہے ہم ہیں کہ ایران کے ساتھ دوقدم بھی کھلے دل کے ساتھ چلنے کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ایرانی صدر دورہ پاکستان کے بعد بھارت گئے ہیں جو ہم انہیں نہیں دے سکے وہ بھارت دے دے گا۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف آئندہ چند روز میں سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں ان کے دورے میں ایرانی صدر کا دورہ پاکستان بھی زیربحث آئے گا، دو دوست ملیں گے تو جو چاہیں بات کریں کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن معاملہ رپورٹنگ کا ہے تازہ ہوا کے لئے کھلی کھڑکی بند ہوئی ہے۔

تبصرے بند ہیں.