ضمنی انتخابات ہونے کے بعد بعض دبتے ہوئے تنازعات پھر سے ابھرتے نظر آ رہے ہیں۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما آپس میں تکرار کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے سے روکنے کا فیصلہ عام انتخابات سے پہلے ہوگیا تھا، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ نتائج ہی موافق نہیں آئے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی نے خصوصاً پنجاب میں ن لیگ کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں، ملک گیر سطح پر بھی یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی غیر معمولی مقبولیت کے دعوؤں میں حقیقت نہیں یا یوں کہہ لیں کہ اسکی حمایت سکڑ رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ نے عام انتخابات کے دوران انتخابی مہم اور عوامی رابطوں میں جو کوتاہیاں کیں ان پر کسی حد تک قابو پانے کا نتیجہ مثبت نتائج کی صورت میں سامنے آ گیا۔ جیل میں بند عمران خان یقیناً اس صورتحال پر پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔ ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں ان کی مشکلات بڑھ جائیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اپنی زبان قابو میں نہ رکھنے کے سبب ان کو دوران قید دی جانے والی غیر معمولی مراعات میں کچھ کمی کی جا سکتی ہے۔ تیسری جانب جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کا موقف مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ وجوہات مختلف ہیں لیکن الیکشن 2024 کے لیے جو منظر نامہ تخلیق کیا گیا اس میں سے نواز شریف، عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو مائنس کر دیا گیا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں سے نواز شریف کو مائنس کرنے کا فیصلہ ان کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ہی کر لیا گیا تھا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل باجوہ نے جس معروف کالمسٹ اور اینکر کو خود مدعو کر کے اپنی جانب سے بڑے بڑے راز آشکار کیے، اس نے اپنی تحریر میں یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ 2016 میں جب یہ نوٹ کیا گیا کہ ملک بالکل درست سمت پر چل پڑا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو شریف خاندان کو اگلے بیس، پچیس برس تک اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ مقتدر حلقوں نے طے کیا کہ اتنا ہی کافی ہے پھر پانامہ، اقامہ نکل آئے۔ حکومتی امور میں اپنی مرضی کرنے کے تاثر کے علاوہ نواز شریف سے بڑا شکوہ یہ بھی رہا کہ انہوں نے جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی جسارت کی۔ سی پیک تو خیر عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ناقابل قبول رہا۔ 2014 کے دھرنوں کی سب سے بڑی وجہ بھی سی پیک ہی تھا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آج ایک بار پھر خود چین کو بھی اس معاملے پر سخت تشویش ہے۔ ابھی چار روز قبل ہی بیجنگ میں انٹرنیشنل ڈیپارٹمنٹ آف کمیونسٹ پارٹی آف چین (سی پی سی) کی وائس منسٹر سن ہائی ین نے کہا ہے کہ کچھ عناصر سی پیک اور ہمیں روکنا چاہتے ہیں، چیلنجز ہیں لیکن پاکستان اور چائنہ کو مل کر ان مسائل کو حل کرنا ہے، انہوں نے یہ بات پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ پارلیمانی وفد سے ملاقات میں کہی۔ یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ نواز شریف ان دنوں خود چین گئے ہوئے ہیں اور اندرون ملک بعض حلقے انکے دورے کو متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر نواز شریف کو کسی منصوبے کے تحت مائنس کیا گیا ہے تو اسکی بنیادی وجوہات کیا ہیں۔ ایسے میں نواز شریف نے اپنی صاحبزادی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے پر جو خاموشی اختیار کر رکھی ہے وہی ریڈ لائن ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی وفاقی حکومت بے شک گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی رہے لیکن پنجاب حکومت کی راہ میں زیادہ رکاوٹیں آئیں تو وہ ریڈ لائن ثابت ہو سکتی ہے۔ نواز شریف اعلانیہ اپوزیشن کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ رہ گئے عمران خان ان کا مائنس ہونا اس لیے فطری امر ہے کہ وہ معیشت، سفارت اور سیاست کو جس نہج پر لے آئے تھے اس کے بعد دوبارہ چانس لینا ممکن نہ تھا۔ اوپر سے انہوں نے غیر ملکی لابیوں کی بھرپور حمایت اور ملکی اداروں میں موجود اپنے حامیوں کی مدد سے ریاستی مفادات اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایسا محاذ کھول لیا جس سے واپسی کا راستہ آسان نہیں۔ کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ جیل اور مقدمات میں ملنے والا غیر معمولی ریلیف محض کسی جج کا انصاف نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ خود ایسا چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سر پر پی ٹی آئی کی تلوار لٹکتی رہے۔ ریاست تو عمران خان کو ”اثاثے“ کی صورت میں محفوظ رکھنا چاہتی ہے لیکن وہ دیوار سے ٹکریں مار کر اپنی مشکلات میں خود اضافہ کر رہے ہیں۔ اب تک کی صورتحال سے واضح ہے کہ انہیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا۔ جہاں تک مولانا فضل الرحمن کا معاملہ ہے تو ان کے قریبی ذرائع بتا چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت امریکہ کا دورہ کرنے کے بعد جے یو آئی سے ہر سطح پر رابطے منقطع کر لیے تھے۔ پارٹی اس عمل کو افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت کے بارے میں کسی ممکنہ ”پیش رفت“ کے حوالے سے دیکھ رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے فرنٹ فٹ پر آ کر جارحانہ انداز اختیار کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ سڑکوں پر احتجاج کرنے کے حوالے سے جے یو آئی کا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی اتحاد ہو، لیکن یہ عین ممکن ہے کہ چند چھوٹی پارٹیاں مولانا کی آواز سے آواز ملا دیں۔ مولانا فضل الرحمن کی ریڈ لائن دینی مدارس ہیں۔ انہیں شک ہے اس حوالے سے حکومتی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ باجوہ، فیض، عمران دور میں مولانا ہی تھے کہ جب اسٹیبلشمنٹ نے ان کو نیب نوٹسز سے دبانے کی کوشش کی تو ان کی جماعت نے کور کمانڈر ہائوس کے گھیرائو کا اعلان کر کے سارا پلان چوپٹ کر دیا۔ اگلے احتجاج کا مقام اور طریق کار کیا ہو گا اس کا انحصار مولانا کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے رویے پر ہے۔ ان دنوں جنرل باجوہ ایک بار پھر خبروں میں آ گئے ہیں۔ موصوف شادی کی تقریب میں صحافیوں کو ملے۔ جیب سے قرآن پاک کا نسخہ نکالا اور جذباتی انداز میں قسمیں کھاتے ہوئے اپنے دور میں پیش آنے والے چند معاملات پر صفائیاں پیش کرنے لگے۔ معالات بھی ایسے جن کی حقیقت روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔ جنرل باجوہ کی اس حرکت سے ان کی شخصیت کے سطحی پن کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ تصور ہی لرزہ خیز ہے اس مملکت خدا داد میں کس کس منصب جلیلہ پر کیسے کیسے افراد فائز رہ چکے ہیں۔ پورے پاکستان کا نظام اس ایک بندے کے اشارے پر چلتا تھا۔ پاکستان کا قیام معجزہ تھا یا نہیں؟ اس پر تو بحث ہوسکتی ہے لیکن ایسے ”رہنمائوں“ کے ہوتے ہوئے پاکستان کا چلتے رہنا واقعی معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے: آمین
تبصرے بند ہیں.