کسان سے ہے پاکستان

98

پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے، جس کا ملک کی مجموعی داخلی پیداوار میں تقریباً 19.5 فیصد حصہ ہے۔ یہاں اکثریت آبادی کا براہ راست یا بلا واسطہ انحصار زراعت کے شعبے پر ہے، مگر اس کے باوجود پاکستان میں کسانوں کا جینا دوبھر ہے۔ آج کسانوں کی حالتِ زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پاکستان میں زراعت کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے جس کی تقویت سے قومی اقتصادیات، مضبوط اور جس کا انحطاط معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ پاکستانی کسان جو دن رات زمین کو سینچتے ہیں، موسم کی سختیوں کا مقابلہ کرتے ہیں، فصلوں کی بہتر پیداوار کے لیے جان توڑ محنت کرتے ہیں مگر پھر بھی ان کی محنت کا صلہ انہیں مکمل طور پر نہیں دیا جاتا۔ آدم ؑ کے بعد دنیا کی پہلی آبادی جب وجود میں آئی تو بنی آدم کا پیشہ صرف زراعت اور غلہ بانی ہی تھا۔ اپنی انتھک محنت اور لگن سے کسان نے اس کرۂ ارض کو انواع و اقسام کی فصلوں، باغوں، پھلوں اور پھولوں سے آراستہ کر کے رشکِ فردوس بنایا اور خوراک کے ہر معاملے میں خود کفالت کی منزل کو پا لیا۔
حلال رزق کا مطلب کسان سے پوچھو
پسینہ بن کے بدن سے لہو نکلتا ہے

کسان کی لگن اور انتھک محنت کے باعث جب ضرورت سے زیادہ اناج پیدا ہونا شروع ہوا اور اسے ذخیرہ کرنے کی نوبت آ پہنچی تو پھر ایسی بستیاں وجود میں آئیں جو بعد میں قصبات اور پھر شہروں کی شکل اختیار کر گئیں۔ خدانخواستہ اگر کسان فصلیں کاشت کرنا بند کر دیں تو ربِ کائنات ہی بہتر جانتا ہے کہ بنی نوع انسان پر کیا حالات گزریں گے، کیونکہ غذا کے حصول کا واحد راستہ جو بنی آدم کے پاس موجود ہے وہ کھیتوں میں کاشتکاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ گرزتے وقت کے ساتھ دنیا واضح طبقات میں بٹ گئی یعنی ایک دیہاتی تو دوسرا شہری۔ وقت کے ساتھ کسان کے پیدا کردہ اناج اور دیگر زرعی پیداوار کو ذخیرہ کرنے والے لوگ تعلیمی، ذہنی، معاشی اور معاشرتی طور پر ترقی یافتہ ہو گئے اور خود کو مہذب شہری سمجھنے لگے، مگر کسان کسی صلے اور ستائش سے بے نیاز خوراک پیدا کرنے کے عمل میں مصروف رہا۔ آج جب دنیا ترقی یافتہ ہو چکی ہے پھر بھی یہ کسان اناج پیدا کر کے نسلِ انسانی کی بقا کی ضمانت فراہم کر رہا ہے۔ انسانی دنیا میں کسان بہت اہمیت کا حامل ہے گندم سے لے کر دال تک، چاول سے لے کر چینی تک کسان کی محنت کا نتیجہ ہے۔ شومئی قسمت کے گزشتہ کئی سال سے ملک میں کپاس اور گندم کی پیداواری لاگت میں اضافہ جبکہ پیداوار اور قیمت میں اتنی گراوٹ آ چکی ہے کہ کسان اگلی فصل کی کاشت کے تقاضے پورا کرنے کی سکت سے محروم ہیں۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

یہ معاشی المیہ ہماری زرعی پالیسیوں کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہمارا کسان جھلسانے والی گرمی، بارش، طوفان اور دیگر زمینی اور آسمانی آفات کی پروا کیے بغیر دن رات کی انتھک محنت سے ہمارے لیے خوراک پیدا کرنے کا واحد وسیلہ ہونے کے باوجود مفلوک الحال اور پسماندہ ہے۔ ایک مخصوص طبقے نے اسے شعوری طور پر پا بہ زنجیر کر رکھا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ کاشتکاری کے طور طریقے بھی بدلے ہیں مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے کسان آج بھی قدیم طرز کی زراعت پر انحصار کر رہے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر کسانوں کے پاس زراعت کے لیے ضروری جدید آلات کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تغیرات، آبی قلت، بینکوں سے قرضوں کی عدم دستیابی، مہنگے زرعی آلات، منڈیوں تک رسائی میں مشکلات اور زمینی زرخیزی میں کمی بھی ان کی پیداوار پر برائے راست اثر انداز ہو رہی ہے۔ حکومتی سطح پر زرعی پالیسیوں میں انتظامی کمزوریاں اور غیر منصفانہ زرعی سبسڈیز کی تقسیم بھی ان مسائل میں سر فہرست ہے۔ ہمارے ملک میں زراعت کا ایک بڑا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ اس شعبہ کو دور حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تحقیق کے پہلو کو بُری طرح سے نظر انداز کیا گیا۔ کسانوں کی اکثریت ابھی تک جدید زرعی تکنیکوں سے نا واقف ہے۔ اس کے علاوہ زرعی ادویات کا غیر معیاری استعمال بھی فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سبب ہے۔ شاید تاریخ کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ کسان کی بے مثال محنت کا صلہ اکثر و بیشتر بے رحم منافقت سے ادا کیا گیا ہے۔ ہر گزرتا دن ہمارے محنتی اور جفاکش کسانوں کے لیے پریشانیوں کے نئے در وا کر تا ہے۔ ہمارے ہاں زیرِ کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے۔ یہاں ایسے کسانوںکی اکثریت ہے جن کے پاس چند کنال سے لے کر دس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔ یہ چھوٹے کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان اور بدحال ہیں، ان کی کاشت کردہ اجناس سے حاصل شدہ معاوضہ ان کی روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہے۔ آئے روز ان کسانوں کی ضرورتیں ان کے روزگار کو دھکیلتے ہوئے برق رفتاری سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ قرض ہیں کہ ان کے بوجھ میں آئے روز اضافہ تو ہوتا ہے مگر کمی نہیں۔ بقول شاعر
منڈی نے لوٹ لیں جواں فصلیں کسان کی
قرضے نے خودکشی کی طرف دھیان کر دیا

ہمارے ہاں اس متوسط طبقے کو خود مختار بنانے کے لیے صدق دل سے کبھی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ یہاں آئے روز قرضوں کی نت نئی سکیمیں متعارف کرائی جاتیں ہیں جن کے جال میں پھنس کر پہلے سے ہی بدحالی کا شکار کسان اپنی زندگی کو مزید مشکلات اور اذیتوںکی نذر کر دیتا ہے۔ کروڑوں کی سبسڈیاں نجانے کہاں چلی جاتی ہیں کہ کسان کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کھاد اور کیڑے مار ادویات کے دن بہ دن بڑھتے ریٹ ہمارے چھوٹے کسانوں کو اسی زہر کو پی کر زندگی کے خاتمے کی طرف اکساتے ہیں، ڈیزل کی قیمتوں میں ہر دوسرے روز ہونے والے اضافے انہیں نذرِ آتش ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ کسان تو آئے روز اپنے اخراجات اور قرضوں کو دیکھ کر مرتا ہی ہے مگر مڈل مین نے تو کسان کو جیسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے یہ وہ متحرک گروہ ہے جو براہ راست کسانوں کی فصلوں کے ریٹ کو کنٹرول کرتا ہے، زخیرہ اندوزی اس گروہ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کون دیکھے گا کہ محکمہ زراعت کی کارکردگی کیا ہے؟ آخر کب یہ محکمہ بھی غفلت کی میٹھی نیند سے بیدار ہو گا؟ کون یہ بات طے کریگا کہ اکثریت میں موجود ہمارے ملک کے چھوٹے بدحال اور پریشان کسانوں کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان کے کسانوں کے زخموں پر مرہم آخر کون رکھے گا؟ آخر کب تک سبسڈی کے نام پر کرپشن ہوتی رہے گی؟ کب تک ہمارے ملک کی معیشت اور زراعت مفادات کی نذر ہوتی رہے گی؟

تبصرے بند ہیں.