باہرکی دنیامیں امیروںسے ٹیکس لیکرغریبوں پرلگایاجاتاہے مگرہمارے ہاں رواج یہ ہے کہ غریبوں سے ٹیکس وغنڈہ ٹیکس لیکرامیروں پرلگاناہے،اس نظام پررونے،دھونے ،چیخنے اورچلانے سے زیادہ دوحرف بھیجنے کوجی کرتاہے۔اللہ کاڈر،خوف،انصاف اورانسانیت یہ چیزیں وباتیں کہیں ہوں گی لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں نہیں۔ہمارے والوں میں انصاف،انسانیت،اللہ کاڈراورخوف ذرہ بھی ہوتاتوکیا۔۔؟ایسااندھا،گونگااوربہرہ نظام اس ملک میں رائج ہوتا۔۔؟یہ کونسا انصاف اورکہاںکی انسانیت ہے کہ پانچ اوردس لاکھ روپے تنخواہ لینے والوں کی عیاشیاں اورمستیاں ہزارپندرہ سوروپے دیہاڑی لینے والوں کے ٹیکس سے پوری ہوں۔اس ملک میں ہزاراورپانچ سوکی دیہاڑلگانے والوں کی تونہ بجلی فری ہے نہ گیس نہ پٹرول اورنہ کوئی میڈیکل لیکن لاکھوں کی تنخواہ،مراعات اورپنشن لینے والوں کی نہ صرف بجلی اورگیس فری ہے بلکہ انہیں پٹرول کے ساتھ علاج معالجے کے نام پر لاکھوں روپے بھی ملتے ہیں۔ امیروں کاٹیکس غریبوں پرلگاناکیا۔؟یہاں توغریبوں کے منہ سے آخری نوالے بھی زبردستی نکال کرامیروں پرلگائے جاتے ہیں۔ہماری قسمت کچھ زیادہ ہی خراب ہے،ایک توہمیں نظام ٹھیک نہیں ملا،گورے یہاں جومیراث چھوڑکرگئے اس میں ایک نہیں ہزاروں خامیاں ہیں،اس کے ساتھ ہمیں جو حکمران ملے وہ بھی گوروں کے چھوڑے گئے میراث سے کچھ کم نہیں۔ سترسالوں سے اپنی عیاشیوں، خواہشات، موج مستیوں اورسہانے خوابوں کی تکمیل وتعبیرکے لئے آئی ایم ایف اوردیگرسودخوروں سے قرضوں پرقرضے یہ لے رہے ہیں لیکن قیمت آج تک غریب عوام ہی چکارہے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کاتوالیکشن جیتنے اور اقتدار سنبھالنے کے بعد دامن پھیلانے، کشکول اٹھانے اورقرض مانگنے کے علاوہ اورکوئی کام ہی نہیں ۔ان کی ان قرضانہ ادائوں کودیکھ کریوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے یہ حکمران ہی اس کام اورمقصدکے لئے بنے ہوں۔آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے قرض یہ لیں گے اورقیمت پھر مہنگائی، غربت، بیروزگاری اوربجلی وگیس کے بھاری بلوں وٹیکسوں کی مدوصورت میں غریب عوام ہی چکائیں گے۔حکمران کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سواکوئی چارہ نہیں،ویسے کہتے توٹھیک ہیںجب خواہشات،لوٹ ماراورعیاشیوں کی کوئی حدنہ ہوتوپھرعوام کوزندہ درگورکرنے کے لئے آئی ایم ایف کے پاس ہی
جاناپڑتاہے۔ اس ملک اورقوم کی آئی ایم ایف اورکشکول سے تب ہی جان چھوٹے گی جب یہاں خلفائے راشدین جیساوقت اوردورآئے گا۔آج ہمارے حکمران ایک خواہش کے لئے پوری قوم کاگلہ گھونٹنے سے دریغ نہیں کرتے۔سترسال سے یہاں یہ کہاجارہاہے کہ،، بادشاہ کاشوق سلامت رہے ملک وعوام اور بہت،، وہ بھی توایک حکمران تھے ،جس کے دل میں مچھلی کھانے کی خواہش پیداہوئی لیکن وقت کے بادشاہ اور حکمران ہو کر بھی وہ خواہش پھر خواہش ہی رہی، ہمارے حکمران ہوتے تویہ اپنی خواہش کیلئے گھوڑا کیا۔؟ 22کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کوبھی گھنٹوں نہیں دنوں کے حساب سے دوڑادیتے۔ قربان جائیں فاروق اعظم ؓ پر۔ جن کوانسان توانسان جانوروں اور گھوڑوں کابھی اتناخیال تھا۔ تاریخ کی کتب میں کہیں پڑھا تھا کہ خلیفہ دوئم حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی ۔ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا۔ دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے۔پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ آٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے۔؟ چھوڑو یرکا۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا۔عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے۔؟وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے۔غلام کہتا ہے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں۔پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروقؓ آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔ مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہے اور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروقؓ اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا۔اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے ”اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے،اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں، کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں،میں تو دعائیں مانگتا ہوں ،اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔میں نے کوئی زیادہ تقویٰ اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے ۔یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا ،اے اللہ میں جانور تھا، بے زبان تھا ،16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا۔؟”یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا۔ حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینہ کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کہ تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں‘‘ اپنی خواہشات کے لئے ہماراگلہ گھونٹنے والے حکمرانوں نے کیا۔؟کبھی یہ سوچاہے کہ کسی گھوڑے نے نہیں25کروڑ انسانوں نے اگرقیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کردی کہ یا اللہ ان حکمرانوں نے اپنی ایک ایک خواہش کے لئے ہمیں سالوں دوڑایاتوپھریہ کیاجواب دیں گے۔؟
Next Post
تبصرے بند ہیں.