ماہ رحمت کے آخری ایام

57

ماہ رمضان جو کہ بخشش اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے۔ تمام تر مشاہدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ رمضان المبارک کی بخشش و رحمتوں کے جو تقاضے ہیں ۔ انہیں ہم انفرادی و اجتماعی طور پراپنی زندگیوں میںمستقل طور پر لاگو کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ماہ رمضان کے بنیادی طور پر تین تقاضے ہیں۔ پہلے تقاضے کا تعلق عبادات سے ہے ، جیسے فرض نماز ، سنتیں ، نوافل اور نمازِ تراویح۔ افسوس کہ بعد از رمضان ان عبادات کا اثر ہماری عملی زندگیوں میں اس طرح نہیں ہوتا ، جس طرح کہ ہونا چاہے ۔ نہایت ادب و احترام سے عرض ہے کہ اس ماہ کو صرف ایک معمول کے طور پر لیا جاتا ہے۔ سچائی بھی یہی ہے ۔ سب سے پہلے تو اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عبادات کیا ہیں؟ عبادات تقویٰ ہے اور تقویٰ کیا ہے؟ اللہ کے خوف کا نام۔ اللہ کے خوف کا پہلا و بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ہر برائی خاص کر جس کا تعلق براہ راست حقوق العباد کی خلاف ورزی سے ہو ہر صورت میں بچنا ہوگا۔ جیسے کرپشن، جھوٹ، چوری، حسد بغض، کینہ، ذخیرہ اندوزی اور دنیاوی عہدوں و مال حرص کے لیے ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا وغیرہ وغیرہ۔ اگر رمضان المبارک میں عبادات کے ذریعے ماتھے پر محراب ڈال کر حقوق العباد سے متعلقہ گناہ صغیرہ وکبیرہ سے اجتناب نہیں برتتے۔ عبادات کے ذریعے جو مثبت اثرات مرتب ہونے تھے نہیں ہوئے۔ عبادات کا جو حق تھا کماحقہ وہ حق ادا نہیں کیا بلکہ ڈھٹائی سے شیطانی اعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خاص کر کرپشن کے حوالے سے تو سمجھ لیں کہ ماہ رمضان کو اپنے ہی ہاتھوں سے ضائع کر دیا۔ہماری زندگیوں میں کینسر کی طرح سرایت کرتی ہوئی کرپشن کی بدترین بیماری نے اب دینی و مذہبی حلقوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اسے گناہ برائی نہیں سمجھا جاتا۔ جو کسی بھی قوم کی روحانیت و نظریات کی اخلاقی گراوٹ ہے۔ کرپشن دنیاوی عہدوں کے حصول و مالِ حرص اور دین و دنیا کی تباہی کی پہلی سیڑھی ہے۔ کعب بن مالکؓ نے اپنے والدمالک انصاریؓ سے روایت کیا:مجاہد اعظم و رحمتہ اللعالمین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ بھی اتنا فساد برپا نہ کریں( خرابی نہ کریں ) جتنا مال اور جاہ کی حرص آدمی کے دین کو خراب کر دیتی ، ترمذی 2376‘‘۔ آج وطن عزیز کی معاشی اور عوام و اشرافیہ کی دینی صورتِ حال سب کے سامنے ہے ۔ اسی لیے تو کہتا چلا آرہا ہوں کہ ’’ کرپٹ مافیا شیطان کا دوسرا روپ ہے۔ رمضان المبارک پا کربھی عبادات کے ذریعے اگر اس ناسور سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکے تو پھر ہمارے ایما ن و عبادات کا اللہ ہی حافظ ہے۔

ماہ رمضان کے دوسرے تقاضے کا تعلق تلاوتِ قرآن مجید سے ہے ۔ دراصل یہ بھی عبادات کا ہی تسلسل ہے ۔ جیسے ہی بابرکت ماہ شروع ہوتا ہے ۔ ہم خود ساختہ مسابقے میں داخل ہو جاتے ہیں کہ ہم نے اتنے اتنے کوئی پانچ کوئی سات اور کوئی دس قرآن مجید ختم کرنے کا اعلان کرتا ہے ۔ اور پھر بزنس ٹرین کی طرح ہر کوئی جلد جلد اپنے ہدف تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن افسوس تلاوت قرآن کی روح اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی شاید ہی کسی نے شادو نادر ہی کوشش کی ہو ۔جس طرح عبادات کا تقاضا ہے کہ اللہ کا خوف پیدا کر کے ہر قسم کے حقوق العباد کی violation سے بچنا ۔ اسی طرح تلاوت قرآن کا تقاضا ہے کہ ہر حرف ، لفظ اور آیت کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کے ساتھ اس کے معانی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ تاکہ عقیدہ توحید کی سمت درست رہے ۔برکتوںرحمتوں کا مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کتاب مبین کی وساطت سے امت مسلمہ کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیںکیا ھدایت دینا چاہتے ہیں؟۔ من حیث القوم اس تناظر میں کبھی سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی۔سچائی تو یہی ہے کہ جلد از جلد ختم کرنے کی ایک دوڑ سی لگی ہوتی ہے ۔ نیکیاں تو مل جائیں گی ، لیکن اس کو سمجھ کر پڑھنے کا کوئی نہیں سوچتا۔کہ تلاوت قرآن کا تقاضا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ،سات ، دس قرآن مجید ختم کرنے کے بعد بھی انفرادی و اجتماعی طور پر دین اسلام ( قرآن و سنت ) کے نام پر سارا سال مختلف بدعات و خرافات میں پڑے رہتے ہیں۔ اور صریحاََ توحید کی طرف نہیں آتے ۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے تلاوت قرآن کا حق ادا نہیں کیا ، ان تلاوت کا ہماری عملی زندگیوں پر اثر نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کی تلاوت کا حق کیا ہے ؟ حق یہ ہے کہ ھدایت یعنی صراطِ مستقیم کی طرف آئیں ، عقیدہ توحید کی طرف جس میں شرک وبدعت کا شائبہ تک بھی نہ ہو۔

جس طرح موٹر سائیکل یا گاڑی کے انجن کی ٹیوننگ ایک خاص مدت ( اتنے اتنے کلومیٹر ) کے بعد لازمی ہوتی ہے۔ ورنہ انجن کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے اور اچھی بھلی گاڑی موٹرسائیکل کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔ اسی طرح رمضان المبارک ہمارے ایمان کی تجدید کے عہد کا مہینہ ہے ۔ طویل غوروحوض کے بعد یہی سمجھ آئی ہے کہ کسی بھی مسلمان کے ایمان کی tuning کی مدت ایک سال ہے ، رمضان سے رمضان ۔ جس میں وہ عبادات و تلاوت قرآن کے ذریعے ( عملی شکل میں اپنا کر ) اپنی ٹیوننگ کرتا ہے ۔ کسی کی tuning چاند رات کو ختم ہو جاتی ہے ، کسی کی ایک ہفتہ بعد ، کسی کی ایک ماہ بعد کچھ دو ماہ لے لیتے ہیں ۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ ہم نے صیحح ٹیوننگ کی ہی نہیں۔ اہل کفار جو سلوک آج ہمارے ساتھ کر رہے ہیں یہ ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے ، پھر ہم شیطان کو کیسے موردِ الزام ٹھہرا سکتے ہیں ۔ بات تو سمجھنے کی ہے۔

رمضان المبارک کے تیسرے تقاضے کا تعلق اسلام و مسلمانوں کی شان وشوکت، رعب ودبدبے اور غلبے سے ہے۔چونکہ رمضان المبارک میں دو ایسے ایمان افروز معرکے ہوئے ۔جس نے جغرافیائی، نظریاتی اور روحانی طور پر دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ ۱، غزوہ بدر ،۲، فتح مکہ ۔

غزوہ بدر جس نے عرب سرزمین میں فتوحات کا راستہ کھولا ، تو فتح مکہ جس کے مجاہدین نے بیرونی دنیا خاص کر قیصر و کسریٰ کے باطل نظاموں کو اپنے پائوں کے نیچے روند کر کلمہ طیبہ کا پرچم بلند کیا ۔اور دنیا کو توحید و امن کی روشنی سے منور کیا۔جلیل القدر و صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین و مجاہدین شہداء کی لازوال قربانیوں کی بدولت ہمارے آباؤ اجداد اور پھر ہم و ہماری نسلیں مسلمان ہوئی ۔17 اور 20 رمضان المبارک میں ملنے والی فتوحات کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔

تبصرے بند ہیں.