آج یوم پاکستان ہے، تجدید عہد کا دن مگر کیا واقعی ہم تئیس مارچ یا چودہ اگست کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ان دنو ں کی اہمیت جاننا،سمجھنا اور ماننا پاکستان کی اہمیت کو جاننا، سمجھنا اور ماننا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم مالی مشکلات کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ حکمرانی کے مسائل ہیں مگر کیا اس وجہ سے ہمارا اپنی دھرتی سے رشتہ سے ٹوٹ سکتا ہے۔ دھرتی کو ماں کہا جاتا ہے۔ ماں سے رشتہ اٹوٹ ہوتا ہے۔ یہ انسان کے اندر بلکہ بہت اندر تک موجود ہوتا ہے جیسے جڑیں۔ یہ قدرتی ہے، فطری ہے۔ آپ کسی بھی دوسرے علاقے میں چلے جائیں آپ کو اپنے قدم جماتے ہوئے عشرے لگ جائیں گے اور نسلوں تک آپ کا تعارف ایک اجنبی کے طور پر کروایاجا تا رہے گا یعنی ہم اپنی مٹی اپنے وطن سے رشتہ، ناطہ اور تعلق نہیں توڑ سکتے۔
آج یوم پاکستان ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ ہم نے پاکستان کی نفی کرنے کو اپنی دانشوری کی انتہا بنا لیا ہے، اسے کسی نہ کسی سیاسی رہنما یا اس کے اقتدار سے باندھ لیا ہے۔ آج دانش کی انتہا یہ ہے کہ ہم کانگریس کے شو بوائے ابوالکلام آزاد کی کہی وہ بات دہراتے ہیں جس میں ا نہوں نے پاکستان کے کامیاب نہ ہونے کی پیشین گوئی کی تھی۔ ابوالکلام آزاد واقعی بڑے قادر الکلام ہوں گے مگر مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ انہوں نے وہ بات اس وقت ہندوتوا کے اثرات سے دبی کانگریس کو خوش کرنے کے لئے کہی تھی۔وہ قائداعظم محمد علی جناح کی اس عظیم تحریک کو ناکام دیکھنا چاہتے تھے جس میں کروڑوں مسلمانوں کے جمہوری اور مذہبی حقوق کی پاسداری تھی۔ وہ پاکستان بننے کی راہ کھوٹی کرنا چاہتے تھے۔ وہ دامے درمے سخنے جدوجہد کرنے والوں کو مایو س کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں ان کے فرمودات کو عقل، منطق اور ضرورت سب ترازووں میں تولنے کی ضرورت ہے۔ وہ مسلمان تھے مگر مسلمانوں کے کاز کے ساتھ نہ تھے۔ وہ فکری مغالطے پید اکر رہے تھے۔
کیا کہا، مولانا عبدالکلام آزاد نے جو کہا وہ سچ ثابت ہوا تو مجھے اس سے بھی اختلاف ہے۔ مولانا، پاکستان کے بارے بات کر رہے تھے یعنی مسلمانوں کے بارے۔ انہوں نے یہ پیشینگوئی تو کر دی کہ پاکستان ناکام ہو گا مگر انہوں نے یہ پیشینگوئی کیوں نہیں کی کہ وہ مسلمانوں کو جس ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں وہ اس کے ساتھ کیا سلو ک کرے گی۔ وہ پاکستان کے بارے سوچ رہے تھے اور اس کا مستقبل دیکھ رہے تھے جس کے وہ مخالف تھے مگر وہ جن کے حامی تھے ان کے ارادوں کو کیوں نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ یہ ایسا ہی شعور تھا جیسا ہمارے ایک سیاسی رہنما نے مبینہ طو ر قوم کو دیا ہے۔ یہ شعور بہت سیانا ہے جو مخالفین سے سوال کرنا سکھاتا ہے، انہیں گالی دینا سکھاتا ہے مگر انہیں اپنے لیڈر سے سوال کی جرات نہیں دیتا۔ اگر کانگریس کے شو بوائے اپنی پیشینگوئیوں میں درست تھے اور وہ جس ہندو اکثریت کی کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے تو وہ قبر سے نکلیں اور جواب دیں کہ آج ان کے دکھائے ہوئے راستے پر مسلمان،ہندوستان میں مسلسل جبر کا شکار کیوں ہیں۔ مسجدیں کیوں ڈھائی جار ہی ہیں، مندروں میں کیوں بدل رہی ہیں۔مسلمان لڑکیوں میں ہندو لڑکوں سے شادیوں کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل میں مسلم قومیت کی شناخت کیوں ختم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہم بہت ساروں کی نظر میں بہت برے اور بہت ناکام ہوں گے مگر بطور مسلمان پاکستان میں بہت بہتر ہیں، محفوظ ہیں۔ مجھے خوشی ہوتی ہے جب ہر گلی، محلے سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، ان مساجد میں آج کل نماز تراویح ہو رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ قائد اعظم کامیاب ہو گئے، ہمارے آباواجداد کامیاب ہوگئے، ہم کامیاب ہوگئے۔
یہ چھوٹے چھوٹے سوشل میڈیا کے دانشور سمجھتے ہیں کہ وہ قائداعظم پر تنقید کریں گے، وہ پاکستان کے قیام پر سوال اٹھائیں گے تو بہت مقبول ہوجائیں گے۔ مجھے اصل شکوہ یہاں ان سے ہے جن سے ’پاکستان ناگزیر تھا‘ جیسی تصانیف کا ظہور ختم ہو کے رہ گیا ہے۔ان کے پاس دو، دو ٹکے کے گھٹیا تھڑے باز دلائل کا جواب دینے کی فرصت نہیں ہے۔ جسے پاکستان کا قیام درست نہیں لگتا تو وہ اٹھائے اپنے ماں، باپ کی قبریں اور اپنے بچوں کے پوتڑے اور ہندوستان چلا جائے۔ اسے یہ ملک جہنم لگتا ہے تو ابوالکلام آزاد کی جنت میں شفٹ ہوجائے۔ کسی کو ہندوستان اچھا لگتا ہے اور کسی کو افغانستان، جاو،فضول میں بک بک کیوں کرتے ہو، وہاں رہ کے دکھاو۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر اکبر الہ آبادی کا یہ شعریہاں فٹ بیٹھتا ہے۔ ’ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں، کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں‘۔
دانشوری کی انتہا پر پہنچنے کا ایک اور زینہ اس وقت پاک فوج پر تنقید ہے اور یہ ساری تنقید اس شخص کے اقتدار کے لئے کی جارہی ہے جو خود دس، گیارہ برس پہلے اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے مقبول ہوا، اپنے مخالفین کوفوج اور عدلیہ کے ذریعے گرایا،، باندھا اور ملک پر چڑھ بیٹھا۔ جب وہ آئینی اورجمہوری طریقے سے اقتدار سے الگ ہونے والا پہلا حکمران بنا تو اس کے ان حامیوں کے خیالات بدل گئے جو کہا کرتے تھے کہ پاک فوج کو اچھا کہنے کے لئے ماں کا نیک اور باپ کا ایک ہونا ضروری ہے۔ اب وہ فوج کو اچھا نہیں کہتے تو کیا ان پر ان ہی کی بیان کردہ یہ دونوں شرائط پوری ہو گئی ہیں۔ اب انہیں لگتا ہے کہ فوج ہی ملک میں اقتصادی اورانتظامی بحرانوں کی ذمے دار ہے تو کیا یہ انہیں آج سے دس، بارہ برس پہلے نہیں لگتا تھا جب سیاست میں ننگی مداخلت ہوتی تھی۔ عمران خان ہوں یا نواز شریف، سادہ سا سوال یہ ہے کہ فوج کی حمایت ان کے اقتدار سے ہی کیوں مشروط ہے۔ اقتدار تو کسی ایک پارٹی کے پاس ہی ہو گا اور کسی نہ کسی کو اپوزیشن میں بیٹھنا ہی ہو گا تو یہ لازم کیوں کر لیا جائے کہ جو بھی اینٹی حکومت ہو گا وہ اینٹی سٹیٹ بھی ہوجائے گا۔ فوج کے برس ہا برس تک کاسہ لیس رہنے والے، اس کے ذریعے کروڑ اور ارب پتی ہوجانے والے یہ دانشور اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوئے پھرتے ہیں بلکہ باولے ہوئے ہھرتے ہیں مگر ان سے بہت سادہ سا سوال ہے کہ اگر فوج دوبارہ پاکستان کو سیاسی، سفارتی اور معاشی ناکامی دینے والے رہنما کو اقتدار میں آنے لے آئے تو کیاتب اس کی یہ مداخلت اچھی ہوجائے گی۔ جو شخص پاکستان کو قرض دینے کے خلاف آئی ایم ایف کو خط لکھ رہا ہے اور جو جماعت اس لئے مظاہرے کروا رہی ہے کہ معاشی بحران کے نتیجے میں خدانخواستہ پاکستان اگلے چھ ماہ میں دیوالیہ ہوجائے۔ خواب ان کا یہی ہے کہ پاکستان کا اقتصادی بحران انتہا کو پہنچ جائے، یہاں لوگ ایک دوسرے کو مرنے مارنے کے لئے نکل آئیں اور ایسے بدترین منظرنامے کو تخلیق کر کے وہ اپنے اقتدار کی راہ ہموار کریں تو ایسی سیاست پر لعنت ہے، ایسی دانشوری پر لعنت ہے۔
تبصرے بند ہیں.