”خوش آمدید! وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز“

62

خوش آمدید! ”وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز“ جو بطور خاتون پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ سنبھال کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ایک سو 133 نشستیں حاصل کی تھیں، 23 آزاد ارکان نے بھی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی، اس طرح سے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب ارکان کی تعداد ایک سو 160 کا ہندسہ پار کر گئی جس نے سیاسی مخالف پارٹی کے اوچھے ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کے مقابل دور دور تک کوئی نظر نہیں آیا۔ جب مریم نواز صوبائی اسمبلی پہنچی تو ان کا عکس نواز شریف کے پر جوش نعروں سے والہانہ استقبال ہوا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی نے پاکستانی خواتین کے نامور کلب میں شمولیت اختیار کر لی ہے جنہوں نے کئی سالوں میں نمایاں مقام حاصل کیا اور مختلف شعبوں میں نام کما کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ وہ مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور بھرپور جدوجہد کی۔ایک ایسے وقت میں جب مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگانے کی سازش رچی جا رہی تھی اور سیاسی مخالفت کا مقابلہ کسی کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ عمران خان دور میں انہوں نے عدالتی کارروائیوں اور نیب کے مقدمات کا والد کے ساتھ مل کر مقابلہ کیا اور بہادری سے مہم چلائی۔جب بولنا بھی جرم سمجھا جاتا تھا، تب مریم نواز کی مزاحمتی سیاست اور جارحانہ تقاریر نے کارکنان کو گرما یابلکہ دوبارہ میدان میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی مزاحمت کے باعث ہی طاقتور حلقوں نے ن لیگ کے ساتھ بات چیت شروع کی۔بلاشبہ نواز شریف کے بعد مریم نواز کو ن لیگ میں سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی ہے۔مریم نواز اپنی جارحانہ انداز کی وجہ سے منفردپہچان رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قائدوسابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز، 28 اکتوبر 1973ء کو پیدا ہوئیں، انہوں نے انگریزی ادب میں جامعہ پنجاب سے ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ مریم نوازکو عام انتخابات 2013ء کے دوران ن لیگ کی جانب سے ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا گیا۔ 22 نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کاچیئرپرسن تعینات کیا گیا تاہم مریم نواز نے 13 نومبر 2014ء کو استعفیٰ دے دیا۔ 6 جولائی 2018ء کو عدالت نے نواز شریف کیساتھ انہیں بھی 7 سال قید اور 2 ملین پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی اور وہ لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پابند سلاسل رہیں۔ مریم نواز کو لندن سے وطن واپسی پر گرفتار کر کے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا اور وہ 69 دن تک جیل میں رہیں تاہم بعد میں عدالت کے حکم پران کی تمام سزائیں معطل کردی گئیں۔ مریم نواز کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ سیکھنے پر Believe رکھتی ہے۔انہوں نے خود کو کبھی برتر نہیں سمجھا۔وہ قائد مسلم لیگ ن نواز شریف کی عدم موجودگی میں عملی طور پر خود کو منوا چکی ہیں کہ وہ مستقبل میں پاکستان کی باگ ڈور سنبھالنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے جس طرح قائد مسلم لیگ ن کے بیانیے”ووٹ کو عزت دو“ کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا،مسلم لیگ کو دوبارہ عوام کے دلوں میں زندہ کیا۔انہی کی مضبوط سیاسی شخصیت کا ہی خاصہ ہے۔وہ نہ ڈری،نہ جھکی بلکہ ڈٹی رہیں اور اپنے مصمم ارادے کے ساتھ آگے بڑھتی رہیں،آج پنجاب کی اہم ذمہ داری ملنا انہی کا عزم صمیم ہے۔ اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ اس حوا زادی کے فولادی حوصلوں نے ثابت کر دیا کہ عورت اگرڈٹ جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ماضی میں برصغیر کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو رضیہ سلطانہ نے حکومت کرکے ثابت کر دیا تھا کہ وہ مردوں سے بہتر امور حکمرانی انجام دے سکتی ہے۔ قائد نواز شریف کی سربراہی میں مریم نواز گذشتہ کئی روز سے پنجاب کو سابقہ حکومت کی بد حالی کے دور سے باہر نکالنے کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ا نفارمیشن ٹیکنالوجی پروموشن، تعلیم، صحت، زراعت، امن و امان، پاپولیشن اور ترقیاتی اقدامات ان کی ترجیحات میں شامل ہوں گی جس کے مطابق پورے پنجاب میں بلا تفریق صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، لاء اینڈ آرڈر، زراعت، آئی ٹی وغیرہ سب پر مساوی تقسیم ہو گی۔ ہر حلقہ، ہر ضلع، ہر یونین کونسل ہر ڈویژن ماڈل بنے گا، کوئی دوسرے سے کم نہیں ہو گا۔ نامزد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی کیلئے واضح ترجیحات کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پارٹی قائد اور صدر کی خدمت کی میراث کو لے کر آگے بڑھیں گی۔مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کو کوئی سیاسی تجربہ نہیں لیکن وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ان کی سیاسی تربیت پاکستان کے صف اول کے لیڈر سابق وزیر اعظم مسلم لیگ قائد محمد نواز شریف کے زیر سایہ ہوئی ہے۔ انہیں نواز شریف کی سر پرستی حاصل ہے۔ واضح رہے کہ مریم نواز شریف نے ہی 2013ء کے نواز شریف کے دور حکومت میں یوتھ پروگرام کا منصوبہ بنایا اور اس کی سرپرست بھی رہیں۔ہیلتھ کارڈ جس کا کریڈٹ پی ٹی آئی نے اپنی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی اس کا آئیڈیا بھی مریم نواز نے پیش کیا تھا اور نواز شریف ہیلتھ کارڈ کی کامیابی کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وزارت اعلی کا منصب مریم نواز کا پہلا سیاسی امتحان ہے اور انہیں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا جن میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور خراب معیشت سب سے بڑا چیلنج بن کر ان کے سامنے کھڑا ہے۔ مریم نواز کا دوسرا بڑا چیلنج اس تاثر کو بھی ختم کرنا ہے کہ ان کی حکومت اظہار آزادی رائے پر پابندی اور سیاسی مخالفین پر مقدمات کو بطور آلہ استعمال کرے گی۔ انشاء اللہ وہ اپنی خداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان مشکلات کے پل کو بھی عبور کر لیں گی۔قومی و ملکی تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب میں نواز شریف نے تعمیر و ترقی کی بنیاد رکھی تھی اور بعدازاں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی گڈ گوررننس نے اسے چار چاند لگا دئیے تھے۔ راقم الحروف کی ادنیٰ سی گزارش ہے اب مریم نواز صاحبہ پنجاب میں فلاحی و عوامی بہبود کے لئے انقلابی اقدامات اٹھائیں اور صوبے کو صحیح معنوں اسلامی ریاست مدینہ کا رول ماڈل بنائیں کہ یہاں کسی کو آٹے کے حصول کے لئے خوار نہ ہونا پڑے۔ خواتین کے تحفظ،ان کے معاشی اور سماجی مقام کی بہتری کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ مریم نواز کی قیادت میں پنجاب ترقی کی روشن منزلوں پر رواں دواں ہوکہ پنجاب والے نواز شریف اور شہباز شریف کے دور کو بھول جائیں اور بطور وزیر اعلیٰ اپ کا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے!

تبصرے بند ہیں.