آرہی ہے چاہِ یسف سے صدا

60

فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ لوگ ہمیشہ خیر سے رہیں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ تاریخ میں حسد کی سب سے بڑی مثال ہمیں برادرانِ یوسف کی ملتی ہے۔حضرت یوسفؑ نبی تھے، نبی کے بیٹے تھے، نبی کے پوتے اور نبی کے پڑپوتے تھے۔حضرت یوسفؑ اپنی بہترین عادات،اعلیٰ کردار،عمدہ اخلاق اور بے مثال معصوم حسن کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کی آنکھ کا تارا تھے۔ بچپن سے ہی اپنے دوسرے بھائیوں سے مختلف تھے، حضرت یعقوبؑ اپنی ساری اولاد میں حضرت یوسفؑ سے والہانہ محبت کرتے تھے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یعقوبؑ حضرت یوسفؑ کی پیشانی کا چمکنا ہوا نورِ نبوت پہچانتے تھے۔ یعقوبؑ کی یوسفؑ سے انسیت برادرانِ یوسف کے لیے نا قابلِ برداشت تھی، وہ یعقوبؑ کے قلب سے ان کی محبت نکالنے اور یوسفؑ کو راستے سے ہٹانے کی تدابیر میں رہتے۔ یوسفؑ کے بھائیوں کے حاسدانہ رویے کا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ایک خواب دیکھا، جسے قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا ہے، جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا ”اے ابا جان! میں نے خواب میں گیارہ ستاروں، سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں“ انہوں نے کہا، ”اے میرے بیٹے! تو اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نا کرنا۔ ایسا نا ہو کہ وہ تیرے ساتھ کوئی چال چلیں، بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرے گا اور معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا اور تجھے اپنی بھرپور نعمت عطا فرمائے گا“۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ جب یوسفؑ اپنے والد کو اپنا خواب سنا رہے تھے تو ان کی سوتیلی والدہ دروازے کی آڑ سے ان کی باتیں سن رہیں تھیں، انہوں نے یہ بات اپنے بیٹوں کو بھی بتا دی۔ بالآخر حسد، نفرت اور بغض کی آگ نے ایک روز برادرانِ یوسفؑ کو ان کے خلاف سازش رچانے پر مجبور کر دیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”وہ کہنے لگے کہ یوسف (علیہ السلام) اور اس کا بھائی (بن یامین) ہمارے باپ کو زیادہ پیارے ہیں، حالانکہ ہم زیادہ طاقتور ہیں۔ بلاشبہ، ہمارے والد صریح غلطی پر ہیں۔ یوسف کو تو مار ہی ڈالو، یا تو کسی (نا معلوم) جگہ پھینک دو، تا کہ والد کی توجہ صرف ہماری طرف ہو جائے، اس کے بعد تم نیک ہو جانا“۔ بھائیوں کو اپنے والدکی یوسفؑ سے بے پناہ محبت ناگوار گزرتی تھی اسی سبب انھوں نے یوسفؑ کے قتل کا ارادہ کیاجو بعد میں بڑے بھائی کے مشورے پر بدل دیا اور انھوں نے یوسفؑ کو کنویں میں پھینکنے پر اکتفا کیا۔حضرت یوسفؑ اور حضرت محمد ﷺ کی زندگی ایک دوسرے سے بے حد مماثلت رکھتی ہے۔آپ ﷺ کو مکہ سے نکالا گیا، قتل کے منصوبے بنائے گئے، کئی بار آپ ﷺ پر حملے کیے گئے اور کتنی ہی مرتبہ آپ ﷺ سے عہد کر کے توڑ دیئے گئے۔ دونوں ہی کی داستانِ حیات کا آغاز مصائب سے ہوتا ہے۔ اپنوں کے ہاتھوں مصائب، قید و بند کی صعوبتیں، جلا وطنی، ہجرت، دونوں کی حیات میں مشترکہ ہیں، دورِ عروج اور کامیابی کا انداز بھی ایک جیسا ہے۔بقول شاعر

؎صبرِ ایوب کیا، گر یئہ یعقوب کیا
کیا کیا نا تیرے ہجر میں محبوب کیا

آپ ﷺ جب ان ساری منازل سے گزرنے کے بعد مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو چشمِ فلک نے سر زمینِ مصر کا وہ دل آفروز منظر ایک بار پھر سے دیکھا، جب رئیسِ مکہ سر نگوں تھے اور رسولِ خدا ان کے شہر کو فتح کر کے انکے سامنے جلوہ آفروز تھے۔ پوچھا بتاؤ تمھیں مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید ہے؟ سب نے یک زباں کہا: ’آپ نیک خو بھائی اور پاک طینیت بھتیجے ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے وہی کچھ کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا: ’آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی‘ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ چاہِ یوسف سے ابھرنے والی صدائے بازگشت سے عالمِ انسانیت میں جو ارتعاش پیدا ہوا، اس نے رشتوں کے تقدس میں ایک نئی جہت، نیا ولولہ پیدا کیا۔ برادرانِ یوسفؑ کا یہ واقع نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان اس جہدِ مسلسل کی تجدید ہے جس کی ابتدا ہابیل اور قابیل کے درمیان حسد اور نفرت کی بنا پر ہوئی اور بھائی کے قتل کا باعث بنی۔ نیکی اور بدی کے درمیان یہ حپقلش ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی، اور کامیابی ہمیشہ حق اور سچ ہی کی ہو گی۔ ان واقعات میں ایک جانب صبر و استقامت، تسلیم و رضا، بردباری و تدبر، سخاوت، فیاضی، سوزوگداز، حق گوئی، عفو و در گزر، حکمت و معاملہ فہمی، محبت و شفقت کا حسین سنگم ملتا ہے وہیں دوسری جانب عداوت، حسد، نفرت، سنگدلی، رقابت، قہر،بہتان اور جھوٹ کے پہاڑ مگراس سب کے باوجود نا تو برادرانِ یوسفؑ نا تو والد کی آنکھ کا تارا بن سکے، نا یوسفؑ کے مقام کو پہنچ سکے اور نا انکا کچھ بگاڑ سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہی اسباب سے حضرت یوسفؑ کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔

؎آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

باب العلم صاحبِ نہج البالاغہ حضرت علیؓ کا فرمان ہے: ’جسے اپنے چھوڑ دیں‘ اسے غیر اپنا لیتے ہیں۔ برادرانِ یوسفؑ نے اپنے بھائی کو اندھے کنویں میں پھینک دیا، لیکن قدرت کا فیصلہ تھا کہ ایک غیر علاقے کے عزیزِ مصرنے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا، اور جب زنانِ مصر میں ان کے حسن کے چرچے عروج پر پہنچے تو اپنے محسن کی عزت کی حفاظت کی خاطر پابندِ سلاسل ہو کر زندانِ مصر کو اپنا مسکن بنا لیا۔اور پھر ایک خواب کی تعبیر بادشاہِ مصر کو زندان کے گوشۂ گم نامی کے باسی یوسفؑ کا اسیر بنا دیتی ہے۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا رب ہوتا ہے جو شہ رگ سے بھی قریب ہے اور اپنے بندے کو کسی بھی حالت میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ یوسفؑ کا قصہ اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ رب العزت جسے بلندی اور سرفرازی سے نوازنا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی۔ دنیا والے اپنی جس چال کو اسے گرانے کے لئے انتہائی کارگر اور یقینی سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ اسی تدبیر سے اپنے اس بندے کے اٹھنے کی صورتیں پیدا کر دیتا ہے، اور ان لوگوں کے حصے میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اسی کے بر عکس خدا کی ذات جسے گرانا چاہتی ہے اسے کوئی تدبیر نہیں سنبھال سکتی۔ گریئہ یعقوبؑ نے ہجرِ یوسف ؑ میں اپنی بصارت کھوئی تو ربِ باری تعالیٰ نے پیراہنِ یوسفؑ سے بینا کر دیا اور پھر چشم ِ فلک نے خانوادۂ یعقوبؑ کے ملاپ کا وہ منظر دیکھا جس میں تختِ مصرپر رونق افروز یوسفؑ اور یعقوبؑ کے سامنے برادرانِ یوسف ؑ سجدہ زیر ہیں اور یوں یوسفؑ کے بچپن کے اس خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔۔۔

تبصرے بند ہیں.