میں پچھلے چند دنوں سے انتہائی کرب میں مبتلا ہوں۔ میرے آنسو خشک ہو چکے ہیں، میرا دل چھلنی ہے،میرا سانس رک چکا ہے اور میں وہم کا مریض بن گیا ہوں۔ میں سو کر اٹھتا ہوں تو مجھے کھنڈرات پر بیٹھ کر رات گزارنے والے ہزاروں انسان دکھائی دیتے ہیں۔ میں کھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہوں تو مجھے سینکڑوں یتیم بچے خالی برتن ہاتھوں میں لیے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ میں پانی کا گلاس ہونٹوں کے قریب کرتا ہوں تومجھے پانی کے آئینے میں ہزاروں لوگ صحرا میں بیٹھے ترستے دکھائی دیتے ہیں۔ میں پیار سے کسی بچے کوچومنا چاہتاہوں تو ہزاروں خون آلو بچوں کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے آ گھوم جاتے ہیں۔ میں شام کے وقت گھر لوٹتا ہوں اور گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہوں تو مجھے ملبے پر بیٹھے ہزاروں ننھے اور اداس پھول دکھائی دیتے ہیں۔ میں رات کو اپنے والد اور والدہ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں تو مجھے ہزاروں مائیں کلیجہ پیٹتی اور بین کرتی نظر آتی ہیں۔ میں بازار جاتا ہوں تو مجھے ہر طرف بکھرا ہوا ملبہ دکھائی دیتا ہے۔ میں نماز کے لیے مسجد جاتا ہوں تو مجھے قرآن کے سینکڑوں نسخے خون میں لت پت نظر آتے اور ہر طرف بکھرے ہوئے اوراق دکھائی دیتے ہیں۔میں جب سے وہمی مریض بنا ہوں میرا دکھ بہت بڑھ گیا ہے، میں رونا چاہتا ہوں مگر آنسو ہیں کہ خشک ہو چکے ہیں۔ میں دھاڑیں مارنا چاہتاہوں مگر ڈرتا ہوں لوگ مجھ پر ہنسیں گے اور آوازیں کسیں گے۔ مجھے جذباتی کہیں گے اور میرا مذاق اڑائیں گے۔ میں آنے والے آنسوؤں کو روک تو نہیں سکتا اس لیے اکیلے میں رو لیتا ہوں۔ کبھی کسی مجلس میں بیٹھے اچانک کوئی ویڈیو سامنے آجائے تو چپکے سے اٹھ کر باہر چلا جاتا ہوں۔ کبھی سوچتا ہوں میں لکھ کر اپنا غم ہلکا کر لوں مگر الفاظ بھی میرا ساتھ نہیں دے پاتے۔ مجھے الفاظ کی اوقات کا بھی پتا چل گیا ہے، یہ خوشی کے موقعہ پر خود بخود چلے آتے ہیں مگر اب جب میں اذیت میں مبتلا ہوں یہ بھی گنگ ہو گئے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں شاید ان کا عجز ہے کہ یہ میرے دکھ اور کرب کے اظہار کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ میں بحیثیت انسان موجودہ عہد میں زندہ ہونے پر شرمسار ہوں۔میرے پاس میرے وجود کے ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میں نے تاریخ میں انسانی ظلم کی کہانیاں پڑھی تھیں، میں نے چنگیز خان اور ہلاکو خان کے ظلم و ستم کی داستان پڑھ کر اس عہد کے انسانوں پر افسوس کیا تھا۔ آج مگر میں خود انسانی تاریخ کے بدترین عہد میں زندہ ہوں۔ میرا جی چاہتا ہے میں ان دانشوروں کے گریبانوں کو جا کر پکڑوں اور انہیں جھنجھوڑ کر سوال کروں تمہارا وہ بیانیہ کہاں ہے جس میں تم کہتے تھے کہ آج انسان اپنی تاریخ کے بہترین عہد میں زندہ ہے۔میں نے تاریخ میں انسانوں کے گھاس کھانے کی داستانیں پڑھی تھی، میں سوچتا تھا یہ کیسے ممکن ہے۔ میں اسے کسی ماہر لکھاری کی فسوں کاری قرار دیتا تھا۔ میں سمجھتا تھا یہ مؤرخین کی زیب داستان کے لیے گھڑی گئی کہانیاں ہیں۔آج میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو بھوک سے بلکتے اور گھاس کھاتے دیکھتا ہوں توسوچتا ہوں قدرت نے میری غلطی فہمی کی سزا کا اہتمام کردیا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں شاید یہ مناظر دیکھنا میرے سنگین گناہوں کی سزا ہیں۔ میری روح گھائل ہو چکی ہے۔ میرا وجود درد کی مجسم تصویر بن چکا ہے۔میرا وجودان بادلوں کی طرح ہے جو کبھی بھی، کہیں بھی، ہلکی سی آہٹ سے برس پڑتے ہیں۔ میں اس بوڑھی ماں کا وجود بن چکا ہوں جو جوان بیٹے کی موت پر گھر کے صحن میں اکیلی بیٹھی دن میں کئی بار اشک بہاتی ہے۔ کسی کے اچانک آنے پر ہنسنے اور غم چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔
انسانی عہد کے ان اذیت ناک حالات میں اہل عرب اور اہل عجم سب گنگ ہیں۔ اہل مشرق اور اہل مغرب سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ انسانیت من حیث المجموعی تماش بین بن چکی ہے۔ بڑی اور چھوٹی اسکرینوں پر سب دیکھ رہے ہیں کہ پھول مسلے جا رہے ہیں۔ کلیاں بھسم ہو رہی ہیں۔ زندگی بھر کی جمع پونجی سے بننے والے ددچار کمرے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔کہیں ماں باپ زندہ ہیں اور اولادملبے کے ڈھیر تلے دب چکی ہے۔کہیں اولاد زندہ ہے اور ماں باپ کھو گئے ہیں۔ دو تین سال کا بچہ گھر کے ملبے پر کھڑا حسرت بھری آنکھوں سے ماں کو ڈھونڈ رہا ہے۔ کہیں بوڑھی ماں اینٹوں کے ڈھیر پر بیٹھی جوان اولاد کو پکار رہی ہے۔کسی گھر کی سربراہ آٹھ دس سالہ وہ بچی ہے جس کا سارا خاندان بارود میں جل چکا ہے۔کہیں چھ سات سال کا بچہ چھوٹے بہن بھائیوں کو دلاسا دے رہا ہے۔ کہیں کم سن بہن بھائی گھر کے ملبے کے ڈھیر پر شہید ہونے والے ماں باپ کو آوازیں دے رہے ہیں۔کوئی اس سات آٹھ سالہ بہن کے دکھ درد کا اندازہ کر سکتا ہے جو والدین کی شہادت کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کو سمیٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔ کوئی اس بچے کی آنکھوں میں چھپے خوف کو محسوس کر سکتا ہے جس کے سامنے اس کے والدین خون میں لت پت ہو گئے۔کیا اہل مشرق کیا اہل مغرب سب تماش بین بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت کی اس سے بڑھ کر تماشی بینی اور کیا ہو گی کہ ہم ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں۔ جو بچ گئے وہ خیموں میں بھوک اور سردی سے مر رہے ہیں۔ ”مر رہے ہیں“ کو شاید کو ئی سمجھ سکے۔ جنہیں اچانک موت نے آ لیا وہ خوش قسمت تھے۔ یہ ہر روز تھوڑا تھوڑا مرتے ہیں۔سسکتے ہیں۔ بلکتے ہیں۔ آہیں بھرتے ہیں۔ اپنے پیاروں کو سسکتے بلکتے اور آہیں بھرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔یہ سوچتے ہوں گے کہ کاش اچانک ہی مرجاتے۔
میرے دکھ، میرے کرب اور میری بے بسی کو دیکھ کردنیا کی یہ ملعون ترین قوم اور انسانیت کا ”ناسور“ کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ میں ہا رگیا ہوں۔ میں ٹوٹ گیا ہوں۔ میں نے سر جھکا لیا ہے یا میں نے اس کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ میں لوٹ کرآ ؤں گا اور پوری شدت کے ساتھ آؤں گا۔ فی الحال میں اسے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں۔
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اتراؤ، آئینہ ہمارا ہے
آپ کی غلامی کا،بوجھ ہم نہ اٹھائیں گے
آبرو سے مرنے کا،فیصلہ ہمارا ہے
عمر بھر تو کوئی بھی، جنگ لڑ نہیں سکتا
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے، تجربہ ہمارا ہے
اپنی راہنمائی پر، اب غرور مت کرنا
آپ سے بہت آگے، نقش پا ہمارا ہے
غیر ت جہاد اپنی،زخم کھا کے جاگے گی
پہلا وار تم کر لو، دوسرا ہمارا ہے
تبصرے بند ہیں.