وطن عزیز کی تاریخ نے منفی حوالوں سے اپنے سابقہ ریکارڈ خود ہی توڑے ہیں۔ زیادہ پرانی بات پر نہیں جاتے۔ 2024ء کے عام انتخابات 2018ء کے انتخابات کے آفٹر شاکس ہی ثابت ہوئے۔ 50 ہزار سے اوپر لوگوں کی کسی جلسہ میں شرکت ہو تو وہ لاکھوں کا جلسہ کہلایا جاتا ہے۔ حالیہ دور میں تو پی ٹی آئی نے اس کی پکچرائزیشن فوٹو شاپ اور ایڈیٹنگ کے ذریعے لبرٹی میں ہونے والے اپنے احتجاج اور جلسے کو پوپ جان پال کے درشن کی تقریب کی فوٹو تک لگا دیئے ہیں۔ 50 ہزار آدمی بہت تعداد ہوا کرتی ہے صرف لاہور میں ہی 14 قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں لاکھوں ووٹرز کے ووٹ ڈالنے کی اطلاعات ہیں۔ محتاط اندازے سے بھی 8 فروری کو لاہور کی سڑکوں، علاقوں، گلیوں میں 40 لاکھ سے زائد مرد و زن نوجوان لڑکے لڑکیاں نظر آنے چاہئیں تھے جب کہ اس دن لاہور میں عام دنوں سے بھی کم لوگ نظر آئے دوسری طرف لطیف کھوسہ کو ہی 40 ہزار ووٹوں سے زیادہ برتری دکھا دی گئی۔ موجودہ انتخابات منصفانہ ہیں نہ شفاف، یہ عادلانہ انتخابات ہیں۔ دھاندلی اگر ہوئی ہے اور یقیناً ہوئی ہے تو وہ آزاد امیدواروں کے حق میں کی گئی ہے۔ (ن) لیگ میں ووٹرز صرف میاں نوازشریف اور ان کے بعد محترمہ مریم نواز کے ہیں جبکہ شہبازشریف کے نام پر ووٹ نہیں پڑتے اور انتخابات میں مسلم لیگ کا ہر وہ امیدوار بُری طرح شکست کھا گیا جو پارٹی کے اندر میاں نوازشریف کا شعوری طور پر ساتھی سمجھا جاتا تھا۔ روحیل اصغر، میاں جاوید لطیف کی شکست کے تو این او سی مسلم لیگی قیادت کی طرف سے بھی مل گئے تھے جس میں میاں نوازشریف شامل نہ تھے۔ سڑکوں پر کوئی رونق نہ بندہ، نہ پولنگ سٹیشنوں پر کوئی رش جبکہ 40 لاکھ لوگوں کو سڑکوں پر ووٹوں کی صورت دکھایا گیا۔ انتخابی نتائج کا لوگوں سے کوئی تعلق نہیں البتہ ایک عادلانہ فیصلہ ضرور ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں کی سیٹوں کو تقسیم کر دیا گیا۔ کوئی ایک جماعت حکومت نہیں
بنا سکتی شاید دو بھی نہیں بنا سکتیں لہٰذا فیصلہ پھر ایمپائر کرے گا۔ یہی جمہوریت ہے۔ مولانا فضل الرحمن جن کو عمران خان کی طرف سے ہمیشہ فضلو اور ڈیزل کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ایک دن عمران خان نے کہا ”اوئے فضلو، اوئے ڈیزل، تم جتنے باہر سے گندے اور غلیظ ہو اس سے زیادہ اندر سے گندے اور غلیظ ہو“۔ مولانا کا کل انٹرویو سن کر مجھے حیرت ہوئی کہ عمران نیازی تو یوٹرن میں مشہور تھا، مولانا نے حد ہی پار کر دی۔ ملک ندیم نے انٹرویو میں فقرہ بولا کہ اس کا مطلب ہے پیپلزپارٹی نے اور (ن) لیگ نے مہر لگا دی (عدم اعتماد کے حوالے سے) تو مولانا ہنس کر کہتے ہیں آپ نے فقرہ نکال ہی لیا۔ مولانا بظاہر تو بہت بھاری بھرکم شخصیت ہیں مگر اس فقرے سے بہت ہی ہلکے پھلکے لگے۔ پی ڈی ایم جب معرض وجود میں آئی تو اس کے ایجنڈا میں عدم اعتماد نمایاں طور پر شامل تھا۔ مولانا فضل الرحمن ناراض تھے کہ اسمبلیوں سے استعفے دیں جس پر پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں سب کے چہرے کھچے ہوئے، ابرویں تنی ہوئی تھیں۔ بظاہر فضل الرحمن اور مریم نواز ایک پیج پر جبکہ بلاول بھٹو الگ دکھائی دیئے۔ مولانا فضل الرحمن نے بلاول بھٹو سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کے متعلق تحفظات ہیں۔ مولانا کا خیال تھا کہ بلاول بھٹو شاید ایسا جواب نہ دیں جو انہوں نے فوراً دیا کہ ہمیں بھی آپ پر سنگین تحفظات ہیں، اس پر مولانا بات کرنا ہی بھول گئے۔ بلاول بھٹو نے اجلاس کے دوران پی ڈی ایم، جو ان کے بلاول ہائوس کراچی میں 2020ء میں بنا تھا، کا ایجنڈا نکالا اس پر جلسے، جلوس، ریلیاں، احتجاج اور دبائو بڑھانے اور اس کے بعد عدم اعتماد تھا جب کہ اسمبلیوں سے استعفے سب سے آخر پر تھے۔ بلاول بھٹو نے ایجنڈا نکال کر اجلاس میں دہرا دیا جس پر سب خاموش اور اجلاس سردمہری سے ختم ہو گیا۔ یہ پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی کے علیحدہ ہونے کی گھڑی تصور ہوئی۔ بلاول بھٹو کا ایک بیان تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ الگ ہو جائے، غیر جانبدار ہو جائے تو عمران نیازی کی حکومت ایک ہفتے میں ختم کر دیں۔ مولانا فضل الرحمن، جو عمران نیازی کو ہمیشہ یہودی ایجنٹ کہتے تھے، نے ایک بار اپنی تقریر میں جنرل باجوہ کو مخاطب کر کے کہا کہ جنرل صاحب ”ہم مر نہ جائیں“ یعنی آپ حکومت کا اس قدر حصہ ہیں اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا بھی سہرا آپ کے سر ہے۔ مولانا نے بندر کو سٹیئرنگ پر بٹھا کر پیچھے وردی والے کو کار چلانے کا لطیفہ بھی سنایا جو زبان زدعام ہوا۔ جب عمران کی کارکردگی ملک و قوم کو برباد کر گئی تو مقتدرہ نے فیصلہ کیا کہ ہم غیر جانبدار ہو جاتے ہیں۔ مولانا کو دھرنوں اور جلوسوں کی وجہ سے کہا گیا کہ آئین میں رہتے ہوئے جو مرضی کریں۔ انہوں نے ایک فقرہ اٹھایا بول دیا اور ملک صاحب نے اپنی زبان سے جملہ نکالا کہ ”پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے پھر مہر لگا دی“ استغفر اللہ! جملہ صحافی کا ہے جس پر مولانا نے بہت ہی ہلکے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنستے کہا کہ ہاں آپ نے فقرہ ڈھونڈ نکالا۔ اس فقرے کو مولانا کا انٹرویو بنا کر پیش کیا گیا۔ مولانا کا عمران کے خلاف پارہ آخری درجے پر تھا حالانکہ باقی جماعتیں آئینی راستہ پر چل کر عدم اعتماد سے حکومت ختم کرنا چاہتی تھیں۔ عمران نیازی بھی عدم اعتماد کی دعائیں مانگتے تھے۔ عمران نیازی اپنی نااہلیت، تکبر اور نامقبولیت کی وجہ سے حکومت سے فارغ ہوئے۔ اگر فوری انتخابات ہوتے تو عمران کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ تھا۔ عمران کا بوجھ اور گند پی ڈی ایم حکومت نے 18 ماہ اٹھایا جس پر شیخ رشید خوش تھا کہ ہماری غلطیاں بھی ان کے سر آئیں گی۔ 8 فروری والے دن جس طرح انتخابات کے رزلٹ میں ووٹوں کا اعلان کیا گیا اتنے لوگ وطن عزیز نے اپنی سڑکوں، گلیوں اور پولنگ سٹیشن پر نہیں دیکھے۔ دھاندلی اگر ہوئی ہے تو وہ نوازشریف کے خلاف ہوئی ہے۔ یہی آئندہ سیاسی مورخ ان انتخابات کے بارے میں فیصلہ دے گا۔ مولانا کا حالیہ انٹرویو مولانا کے ماضی کی محنت کو سیاسی طور پر برباد کر گیا۔ ”یہودی“ ایجنٹ کی حمایت اور اقتدار میں شراکت داری کی خاطر!!!! صحافی کا فقرہ مولانا کا انٹرویو بن گیا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.