سونامی کے آفٹرشاکس اور جھوٹ کا جھنڈا

124

انتخابات 2024ء بھی ایک تاریخ رقم کرنے والا افسانہ ہے۔ 2018ء کو پرورش پانے والا کلٹ جب بطور وزیراعظم مسلط کیا گیا تو اس نے احتساب کے نام پر ظلم شروع کر دیا۔ ایسے جیسے کسی دشمن ملک کو فتح کیا گیا ہے۔ ایک بے نظریے کا آدمی جو اپنے آپ کو پلے بوائے کہتا رہا، قوم پر مسلط کرنے کے بعد اس کی مقتدرہ نے آئینی حدود و قیود کا لحاظ رکھے بغیر حمایت جاری رکھی۔ اس ظاہری کشمکش میں کرپشن اور ظلم کے علاوہ حکومت کا کوئی دوسرا ایجنڈا نہ تھا۔ میاں نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے خلاف ناجائز مقدمات بنائے۔ پیپلز پارٹی جب بھی حکومت میں آئی، اس کی اپوزیشن ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہوا کرتی۔ اس سیاسی بے راہ روی نے بالآخر دونوں بڑی جماعتوں کو میثاق جمہوریت پر متفق کیا جس کے بڑے زبردست نقاط تھے مگر سب بہترین یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بنتے ہوئے ایک دوسرے کو نہیں گرائیں گے۔ یہ میثاق جمہوریت اسٹیبلشمنٹ کے سروں پر بجلی بن کر گرا۔ چونکہ پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت غیر آئینی طور پر ختم کی ہوئی تھی لہٰذا میاں صاحب کے بجائے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے معاملہ کرنا پڑا۔ وہ این آر او جو جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ختم کر دیا۔ اُس کے مطابق محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں اور انہوں نے کہا کہ میں زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل اپناؤں گی جس پر جواب دیا گیا کہ اگر آپ تعاون سے ہٹیں گی تو سکیورٹی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی لہٰذا شہید کر دی گئیں۔ پاکستان کی وہ آواز خاموش کر دی گئی جو دنیا میں سنی جاتی تھی۔ اب ان کا خلا پُر کرنے کے لیے مقتدرہ نے کھل کھلا کر ایک کلٹ جو ضیا کے وقت سے گود لے رکھا تھا اس کو پالا جس نے وطن عزیز کی ثقافت کو زمین بوس کر دیا اور جھوٹ، پروپیگنڈہ، دشنام، الزام، نفرت کو منشور بنایا۔ لوگوں اور نئی نسل کے ذہن میں زہر بھر دیا جس کو مقتدرہ نے حقیقی سیاسی قوتوں کے خلاف خوب بڑھاوا دیا۔ یہ کلٹ نااہل ترین
شخص ثابت ہوا، اس کے دور میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ تکبر اس کی خاص پہچان اور جھوٹ اس کی گفتار رہا۔ بالآخر عدم اعتماد کے ذریعے اس سے جان چھڑائی چونکہ وہ تو کلٹ ہے وہ تو مافوق الفطرت ہے۔ سیاسی کہاں تھا اس نے سوچا میں نہیں تو کوئی بھی نہیں لہٰذا اپنی ہی صوبائی حکومتیں تڑوا دیں۔ مافیاز اس کے پیچھے تھے۔ وطن عزیز کے مخالفین بین الاقوامی سطح پر اس کے حامی تھے اور سوشل میڈیا پر اس کو کمانڈ حاصل تھی۔ جھوٹ آکسیجن زیادہ پھیلا دیا گیا۔ ریاست مخالف اقدامات میں وہ اتنا بڑھ گیا کہ سکیورٹی اداروں نے ملکی سلامتی کے خلاف اقدام میں اس کو دھر لیا مگر وہ فالوورز جو جن کو یہ بھی اور آج بھی علم نہیں کہ وزیراعظم بننے کے لیے 172 اراکین کی حمایت حاصل ہو تو بنتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے بعد جھوٹ کا جھنڈا تھامنے والوں نے جھوٹ وہیں سے زیادہ شد و مد سے شروع کیا جہاں سے وہ جیل گیا تھا۔ انتخابات ہوئے، (ن) لیگ کے حق میں سروے اور مقبولیت نے (ن) لیگ کے ووٹرز کو اطمینان دلا دیا کہ وہ جیت رہے ہیں لہٰذا (ن) لیگ کا ووٹر آدھے سے زیادہ ووٹ ڈالنے ہی نہ گیا اور امیدواروں نے بھی کوئی زحمت نہ کی۔ بلاول بھٹو نے محنت کی اور وہ سب کے سامنے ہے البتہ حلقہ نمبر 127 میں جو ٹیم تھی اس کے لیے میر تقی میر کے مطابق:
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

لوگ اس حلقہ میں منتظر تھے کہ کوئی رابطہ کرے مگر علی بدر کے پاس اس کے ساتھیوں کے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ وقت کم تھا۔

(ن) لیگ کے ووٹرز صبح ہی صبح ٹی وی پر بیٹھ گئے کہ ٹی وی دیکھنے سے ہی میاں صاحب کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ ایک دن پہلے ہی شہبازشریف ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینے کی بات کر رہے تھے جبکہ دوسری جانب میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی حمایت اور کمپین تھی بانی پی ٹی آئی کے حق میں کہ اس کے خلاف مقدمات کے فیصلے، بے شک اس کا سبب بانی پی ٹی آئی کا رویہ تھا مگر عجلت میں دیئے ہوئے دکھائی دیئے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی نے شور مچائے رکھا کہ ہماری عورتوں، بچوں، لوگوں، امیدواروں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ کاغذات نامزدگی پھاڑے گئے، چھینے گئے۔ عمران نیازی کو سزائے موت، اس کی بہن علیمہ ذکر کرتی رہی، اس قدر ظلم کی جھوٹی داستان کے واقعات گھڑے گئے۔ دوسری جانب کلٹ کے خلاف بات کرنے والوں کے ساتھ سوشل میڈیا پر گالم گلوچ جاری رہی۔ کلٹ کے فالورز کو جھوٹ بول بول کر بانی پی ٹی آئی جو ویلنٹائن طبیعت آدمی ہے ذہن میں تکبر کا خناس ہے۔ اس قدر مظلوم بنایا گیا کہ اس کے ووٹرز آ گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اتنا ہی ریاستی سطح پر ظلم تھا تو سوائے چند ایک چہروں کے یہ 80 کے قریب کیا جرأت کر سکتے تھے کہ انتخابات میں حصہ لیتے، ہرگز نہیں۔ یہ سب جھوٹا پروپیگنڈہ جس کو توڑنے کے لیے ایسے انتخابات کرا دیئے گئے کہ اسٹیبلشمنٹ تو سرخرو ہو گئی، عدلیہ بھی سرخرو ہو گئی مگر وطن عزیز کو اسی کلٹ کے حوالے کر دیا گیا۔

اب وزیراعظم کے لیے 172 نشستیں درکار ہیں۔ نیازی تو خود آزاد امیدواروں پر بھروسہ رکھتا ہے اور باقی دو جماعتوں سے نفرت اس کی سیاسی قوت اور منشور ہے لہٰذا یہ شادی نہیں ہو سکتی اور وزارت عظمیٰ کے لیے قومی اسمبلی کے انتخابات آج نہیں تو کل دوبارہ کرانا پڑیں گے۔ یہ یاد رہے اگر بانی پی ٹی آئی جیل سے باہر ہوتا اور جلسوں میں حسب معمول نوازشریف، زرداری صاحبان کو گالیاں دیتا تو ان کا ووٹر بھی گھر میں نہ بیٹھتا اور پھر جو فیصلہ آتا پی ٹی آئی بلے کے نشان کے ساتھ 30 سے زائد سیٹیں نہ لے پاتی۔ اب نئے جھوٹ کا جھنڈا پکڑ لیا ہے کہ ہماری سیٹیں 150 ہیں۔ ویلنٹائن ڈے والے اب اپنے باطن کو ظاہر کرنے چوک چوراہوں میں آنے کی کوشش کریں گے جو جمہوریت کیا ملک کے لیے ہی خطرناک ہو گا۔ سونامی لانے والوں نے ہی سونامی کے آفٹر شاکس کا اہتمام کیا ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو فری ہینڈ نہ دیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.