پاکستانیات اور تاریخ کے طالبعلموں کو اکثر یہ جملہ سُننے کو ملتا ہے کہ فلاں بات یا فلاں شخصیت تاریخ کی گرد میں گم ہو گئی۔ واقعی تاریخ بہت بے رحم ہوتی ہے یہ رویوں اور مزاجوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ تاریخ کا اپنا رویہ ہے جو مستقل بھی ہے اور تلخ بھی ہمیں اس کے مطابق چلنا پڑتا ہے کیونکہ تاریخ کسی کے کہے پر نہیں چلتی۔ ہر سال جب تین 3فروری کی شام ڈھلتی ہے تو مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوتا ہے بلکہ ایک غمناک حقیقت دامن گیر ہوتی ہے کہ ہمارے قومی ہیروز میں ایک نمایاں نام اور جس وطن نے ہم سب کو نام دیا اس وطن کو نام دینے والی مہان شخصیت چوہدری رحمت علی کی ایک اور برسی گزر گئی۔ ان کی رحلت کو ایک مزید سال نے مزید پرانا کر دیا۔ ہم برسیاں منانے اور قبروں پہ پھول ڈالنے میں بھی پسند نا پسند کو ملحوظ رکھنے والی قوم ہیں۔اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جیسے ہمارا قومی کھیل اور قومی سوچ ہے اسی طرح ہمارا ایک قومی وتیرہ بھی ہے کہ ہم محسن کش ہیں۔ ہم تھوڑے بہت استثنیٰ کیساتھ اجتماعی طور پر احسان فراموش ہیں۔ چوہدری رحمت علی بنیادی طور پر برصغیر پاک و ہند کے خالص خمیر سے گند ھے ہوئے پکے ٹھکے اور سچے سُچے مسلم نوجوان تھے جنہوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر میں رونما ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا گہرا اثر لیا۔ باشعور ہونے کے باوصف انہوں نے بہت سے پیش آمدہ مشکل مراحل کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کی خوابیدہ صلاحیتوں نے انگڑائی لینا شروع کی جو تادم آخر شباب پر ہی رہیں۔چوہدری رحمت علی اپنے آبائی علاقے میں بچپن گزار کرمیٹرک کے بعد مزید تعلیم کے حصول کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے۔1915ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں بزم شبلی کی بنیاد رکھی اور اسی بزم کے اجلاس میں پہلی مرتبہ تقسیم ہند کا ایک تخیل پیش کیا۔ ظاہر سی بات ہے اسے محض ایک طالب علم کی ذہنی اختراع کے طور پر لیا گیا۔ چوہدری رحمت علی اسلامیہ کالج کے مجلے ”کریسنٹ“ کے مدیر بھی رہے اور پھر محمد دین فوق کے اخبار ”کشمیر گزٹ“ سے بطور معاون مدیر عملی زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصہ صحافتی و ملی خدمات سر انجام دینے کے بعد مزید تعلیم کیلئے انگلستان چلے گئے۔ کیمبرج اور ڈبلن یونیورسٹیوں سے قانون اور سیاست میں اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں ان کے دل و دماغ میں ہر وقت اپنے وطن اور مسلمانوں کی حالت زار کے متعلق نت نئے خیالات ابھرتے رہتے جن کا تذکرہ وہ اکثر اپنے مصاحبین سے کرتے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم کیساتھ ساتھ طلبہ سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ برصغیر کے طالب علموں کی ایک تنظیم بنائی اور اس کے پلیٹ فارم سے مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ برصغیر میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سے رابطے میں رہتے۔ اکثر معاملات پر اپنی آراء کا برملا اظہار بھی کرتے۔ 1933ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے لئے جب برصغیر کے تقریباً تمام چوٹی کے سیاسی زعماء برطانیہ میں جمع ہو رہے تھے اس اہم موقع پر چوہدری رحمت علی نے برطانیہ میں رہنے والے اپنے ہم خیال طلبہ کی تنظیم پاکستان نیشنل لبریشن موومنٹ کے زیر اہتمام 28 جنوری 1933ء کو ایک مشہور زمانہ کتابچہ Now or Never (ابھی یا کبھی نہیں) شائع کیا۔ اس پمفلٹ میں پہلی بار لفظ ”پاکستان“ متعارف کرایا گیا۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان، بنگلستان اور عثمانستان کے نام سے تین ممالک کا نقشہ بھی پیش کیا۔پاکستان میں کشمیر، پنجاب، دہلی سمیت، سرحد، بلوچستان اور سندھ شامل تھے۔ جبکہ بنگلستان میں بنگال، بہار اور آسام کے علاقے تھے اس کے علاوہ ریاست حیدرآباد دکن کو عثمانستان کا نام دیا۔ 1935ء میں انہوں نے کیمبرج سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالا جس کا نام بھی پاکستان تھا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ رحمت علی نے ”پاکستان“ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ وہ اوّل و آخر پاکستان کیلئے ہی سوچتے تھے اور اسی کے لیے مصروف فِکروعمل رہے۔ ان کی خواہشات، تمنائیں اور سوچیں 14 اگست 1947ء کو قائم ہونے والے پاکستان سے کچھ زیادہ تھیں۔ یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ تقسیم ہند کے منصوبے میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ہندو طرفداری کی بدولت اور سوچی سمجھی سازش کے تحت کشمیر کو پاکستان سے کاٹا گیا اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ پاکستان کو آزاد ہوئے 75سال ہو چکے مگر ہنوز یہ آزادی نامکمل ہے۔ پاکستان بنانے والے بہت سے بزرگ یہ درد اپنے سینے میں لیکر جہان فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ چوہدری رحمت علی اپنے خوابوں کی مکمل تعبیر نہ ملنے پر بہت دلبرداشتہ تھے وہ یہاں آئے لیکن رہ نہ سکے۔ انہیں اپنی زندگی کے آخری سال برطانیہ میں ہی گزارنا پڑے عینی شاہدین کی گواہیاں موجود ہیں کہ وہ کس قدر کرب میں تھے۔ سانس تو لیتے تھے مگر زندگی کی رمک باقی نہ رہی تھی۔
بالآخر 3فروری 1951ء بروز ہفتہ کی صبح اس عظیم محسن اور نقاش پاکستان نے کسمپرسی کی حالت میں برطانیہ میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ بہادر شاہ ظفر کا شعری شکوہ چوہدری رحمت علی پر بھی صادق آیا اور انہیں اپنے مادرِ وطن میں دوگز زمین بھی نہ ملی۔ اس غریب الوطن کے جسدِ خالی کو کیمبرج کے قبرستان میں لاوارث کے طور پر امانتاً دفن کر دیا گیا۔ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں اپنی اپنی حکومتوں میں متعدد بار چوہدری رحمت علی کے جسدِ خاکی کی وطن واپسی لانے کا اعلان اور وعدہ کر چکی ہیں تاہم یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا۔مجھے یاد ہے گذشتہ انتخابات کی مہم 2018 میں نئے پاکستان کا چکمہ دینے والوں نے اسلام آباد کے ایک وسیع و عریض ہال میں بڑے اجتماع کے سامنے چوہدری رحمت علی کا جسد خاکی پاکستان واپس لانے کا وعدہ کیا تھا مگر کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک، کہ انکا کوئی ایک بھی وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ آج ایک مرتبہ پھر یاددہانی اور درخواست ہے کہ نئی آنے والی حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ضرور ادا کرے۔
تبصرے بند ہیں.