مناظرہ کرلیجیے!

67

عام انتخابات کی آمد آمد ہے ، سیاسی جماعتوں کے جلسے ، جلوس ، ریلیاں ، بلند وبانگ نعرے و دعوے جاری ہیں۔سادہ لوح عوام کی توجہ حاصل کرنے کے نت نئے حربے اور تجربے بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ اپنے اپنے قائدین کی مدح سرائی میں نغمے و ترانے لانچ کئے جا رہے ہیں ، نوجوانوں کو واقعی مرکزیت حاصل ہو چکی ہے ۔ شورہے کہ اب پاکستان کی عوام میں شعور بیدار ہو چکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہر جماعت اور گروہ کا اپنااپنا معیار ہے شعور کا بھی اور شور کا بھی ۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک کا شعور دوسرے کیلئے شور کا ہی درجہ رکھتا ہے حالت یہ بنی ہوئی ہے کہ کوئی بھی کسی دوسرے کو ماننا تو کجا برداشت کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ عدم برداشت کے کلچر نے سیاسی مخالفتوں کو ذاتی دشمنیوں میں بدل ڈالا ہے۔ ایک طرف دیکھتے ہیں تو میں نہ مانوں کی رَٹ نے ضد اور انا کے ہمالیہ پر بیٹھے ایک غیر سیاسی رہنما کے پیروکاروں کو اندھیری بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے ۔ جن کو نہ آگے کچھ سجھائی دیتا ہے نہ پیچھے مڑنے کی مجال ہے بس ٹامک ٹوئیوں میں دھیرے دھیرے دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے گذشتہ انتخابات میںجب نئے پاکستان کا نعرہ دیا گیا ،پہلے پہل سب کچھ نیا نیا لگنے لگا اور پھر بہت سے ایسے اعلانات جنہیں وقت نے سراب ثابت کیا اور ہم وہیں رہے جہاں سے سفر شروع کیا تھا بلکہ متعدد تو گرد راہ میں ہی گم ہو گئے اور نیا پاکستان بناتے بناتے پرانے سے بھی گئے ۔ مستزاد یہ کہ ہر جماعت کا کارکن پھر بھی اپنی بات پر ڈٹا رہا بہت تھوڑے سے فرق کیساتھ یہی حال کم و بیش تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کا ہے اور نام ہم جمہوریت کا لیتے ہیں ۔حالانکہ جمہوریت میں چنائو کی گنجائش ہوتی ہے اور جمہوریت کا حسن انتخابات ہوتے ہیں ۔ اسی انتخابی مرحلے سے گزر کر مستقبل کا تعین ہونا
ہے اور امیدوں نے بارآور ہونا ہے ۔ رہی بات ہمارے بنیادی مسائل ، انکے ادراک اور حل کی تو یہ کبھی کسی کی بھی ترجیح نہیں رہے ۔ ا سی بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ ملک میں ایک سال سے انتخابات کے ہونے کی نوید برابر سنائی جاتی رہی ، سیاسی جماعتیں انتخابی اکھاڑے میں اترنے کی تیاریاں بھی کرتی رہیں اور جوڑ توڑ بھی جاری رہا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے باقاعدہ شیڈول آجانے کے بعد بھر پور تیاریوں نے زور پکڑا ، امیدواران فائنل ہوئے اور جب سب ہوگیا تو انتخابی مہم کے حتمی اور آخری مرحلے میں سیاسی جماعتیں عوام کو اپنے منشور سے آگاہ کررہی ہیں ۔8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے صرف دس دن قبل تقریباً تمام جماعتوں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اپنے اپنے منشور ، وعدے اور ارادے ظاہر کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔ روٹی کپڑا اور مکان والے تو کاپی پیسٹ سے کام چلاتے ہیں بات غالباً تیسری نسل سے آگے جا چکی مگر انکی بات روٹی ،کپڑے اور مکان سے آگے نہیں جا سکی ۔ ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ پاکستان کی مفلوک الحال عوام کا بڑا حصہ ان تینوں بنیادی ضروریات سے اب بھی محروم ہے۔ حال ہی میں اندرون سندھ کا آنکھوں دیکھا حال جاننے کے بعد میں یہ تجویز دینے میں حق بجانب ہوں کہ لوگوں کا حال تو نہیں بدلا جا سکا کم از کم الفاظ کا پیرہن ہی بدل لینا چاہئے کہ پرانی بوتل میں نئی والے معاملے کے مصداق کچھ تو نیا ہو ۔یہ کیا کہ ہم منہ سے آگ نکالنے اور لفظی گولہ باری کو ہی حتمی مہارت سمجھے بیٹھے ہیں اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے مباحثے اور مناظرے کا چیلنج دیکر اپنے آپ سے خود ہی مذاق کرنے لگے ہیں ۔ بھلا آپ کے مناظروں سے عام آدمی کو کیا ملے گا ، کیا طرفہ تماشہ ہے کہ محروموں کو سامنے بٹھا کر مجرمانہ غفلت کا تماشا لگایا جاتا ہے اور غریب کا منہ یہ کہہ کر چڑایا جاتا ہے کہ چالیس سال قبل جو نعرہ لگایا تھا اس پر عملدرآمد کیلئے مزید پانچ سال کا مینڈیٹ مطلوب ہے ۔بھئی مقابلہ تو ترقی کے میدان میں ہونا چاہئے جس میں آپ دوردور تک نظر نہیں آرہے۔ جن سے مناظرے کا آپ کو شوق ہو چلا ہے انہوں نے کم از کم نقشہ تو بدلا ، عام آدمی کیلئے سہولیات کی فراہمی کی کوشش تو کی ، طالب علموں کو مفت لیپ ٹاپ اور دانش سکولوں کے منظم نیٹ ورک تک اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے لیکر محنت کش مزدور تک ہر کسی کو کسی نہ کسی طرح ریلیف دینے کی منصوبہ بندی تو کی ۔ سڑکوں اور پلوں کے جال کو لایعنی اور بے وقعت سمجھنے والے ذرا ایک دفعہ صوبہ سندھ کی کھنڈر نما سڑکوںپر سے گزر کر تو دیکھیں گردے کی پتھری نہ نکل جائے تو مناظرہ کی دعوت قبول ۔ ایک گمبٹ بجا مگر کئی انڈس ، اردوان اور مناواں ہسپتالوں سے لیکر پنجاب کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ جیسے منصوبوں کو ناسوروں سے بچا کر تکمیل تک پہنچانا اور پھر یہاں مفت ادویات کیساتھ باسہولت علاج کو ممکن بنانا کسی کمال سے کم نہیں۔ایک ملاقات میںپنجاب کے سابق صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق نے صحت کے شعبے میں ہونے والی انقلابی ترقی کو ایک ہی سانس میں گنوا کر ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ اگر بات روٹی کی ہی کرنی ہے تو روٹی مفت نہ دی سستی روٹی تو انکے کریڈٹ پر ہے نا!۔ کپڑے اور مکان سمیت دیگر سہولیات کے حوالے سے عملی اقدامات اور انکے خاطر خواہ نتائج کی بات کرنے سے پہلے دونوں وقتی متحارب جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ہوم گرائونڈز کا سرسری جائزہ لیا جائے تو اس سارے منظرنامے اورصورتحال میں کسی بھی قسم کے صوبائی و لسانی تعصب سے سو فیصداحتراز برتتے ہوئے سندھ اورپنجاب کے درمیان زمین آسمان کا فرق بالکل واضح ہو جائے گا۔کون زمین پر ہے اور کون آسمان پر اس کا تعین بھی دیکھنے سننے والوں پر چھوڑ دیا جائے ۔ میرے خیال میں اس معمولی سی مشقت نما مشق کے بعد نہ کسی مباحثے کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی کوئی مناظرہ درکار ہو گا ۔

تبصرے بند ہیں.