کل میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ دنیا کی بیس بڑی ریاستوں کے سربراہ ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور کا افتتاح کر رہے ہیں ۔ حیران ہوں کہ مجھے یہاں کیوں بلایا گیا ہے لیکن پھر عالم ِ رویا میں مجھے احساس ہوا کہ میں یہاں چوری چھپے پہنچا ہوا ہوں ۔ سب حکمرانوں کے چہروں کی خوشی دیدنی تھی ۔ ہاتھوں پر ہاتھ مارے جا رہے تھے ۔ایک دوسرے کو گلے لگا کر مبارک بادیں دی جا رہی تھیں ۔ ویٹو پاور ممالک کے سربراہان نے فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا اوراندر داخل ہو گئے۔ ڈیپارٹمنٹل سٹور کے سائن بور ڈ روشن ہوئے تو بڑے حروف میں ’’غزہ ‘‘ لکھا تھا۔میں نے سمجھا کہ غزہ والوں کی حمایت کیلئے کوئی بڑا سٹور کھل گیا ہے لیکن میری حیرانی اورشرمندگی اُس وقت قعر مذلت پر پہنچ گئی جب میں نے ایک حفاظتی اہل کار سے پوچھا کہ ِاس ڈیپارٹمنٹل سٹور کا مقصد کیا ہے؟ تو اُس نے سائن بورڈ کے نیچے لکھی ایک تحریر کی طرف اشارہ کردیا جہاں لکھا تھا ’’ یہاں غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی غیر استعمال شدہ اشیا بیچی جاتی ہیں ۔‘‘ خوف سے میری چیخ نکل گئی اور میں نیند سے بیدار ہو گیا ۔ میں نے اپنے پہلو میں بے خبر سوئے اپنے بچوں تخلیق ٗ ثوبیہ اورعضب کو ایک نظر دیکھا اورپھر چشم تصور مجھے بچوں سمیت غزہ لے گئی ۔ جہاں میں اپنے بچوں کے ساتھ تیزاب کی طرح برستے بارود اور گولیوں کی تڑ تراہٹ میں کسی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں بھاگ رہا ہوں لیکن میزائل ہیں کہ کہیں پیچھا نہیں چھوڑ رہے ۔ دھڑکتے دل اور پھولی سانسوں سے میں صرف یہی سوچ رہا ہوں کہ بیمار اوربھوکے بچے نہ جانے کس قوت کے بل بوتے پر ابھی تک جسم اوررو ح کا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں اتنی دیر میں ایک میزائل نزدیک ہی کسی عمارت کو لگا تو اُس کے ملبے کے ٹکروں نے مجھے اور میرے بچوں کو بھی اپنی پناہ میں لے لیا ۔ میں نے فوراً اِن خیالات کو جھٹک دیا لیکن آنسو تھے کہ جما دینے والی سردی میں رات کے پچھلے پہر نہ جانے کہاں سے میری آنکھوں میں امڈ آئے ۔پس معلوم ہوا کہ روح کا احتجاج کسی بھی اندرونی اوربیرونی قوت سے زیادہ شدید ہوتا ہے ۔
بربریت کی یہ وحشیانہ دھمال شروع ہوئے چار ماہ ہونے کو آئے اورعالمی ضمیرہے کہ غزہ کے آخری مقتول کی لاش کا منتظر ہے ۔ دنیا بھر کی تماشبین ریاستیں اسرائیلی بربریت کو روکنے میں بُر ے طریقے سے یا تو ناکام رہی ہیں یا پھر یہ سب اُن کی
مرضی سے ہو رہا ہے ۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ دوسری جنگ عظیم تو جرمنی نے شروع کی تھی لیکن ایٹم بم جاپان پر گرانے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے تو موجودہ عالمی معروض یہی سمجھا رہا ہے کہ جرمن ایک تو کرسچن تھے اور اُس پر سفید بھی سو امریکہ نے برطانوی مشورے سے جاپان پر ایٹم بم گرا دیا کیونکہ اُن میں یہ دونوں خوبیاں نہیں تھیں اوراِس کے ساتھ اپنے اتحادی روس کو بھی دھمکی دے دی کہ جنگ کے خاتمے پر کسی قسم کا کوئی ایسا مطالبہ اپنے اتحادیوں سے نہیں کرنا جو جنگ سے پہلے طے ہوا تھا ۔جنگ کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اور یہ بات غزہ پر حملے کے بعد اسرائیل اور اُس کے حمایتیوں نے ثابت کردی ہے ۔میرے نزدیک بچہ یا انسان کا ہوتا ہے یا جانورہے اِس کے علاوہ جو بچوں میں تقسیم کرتا ہے اُس کی اپنی حیثیت ایک جانور سے زیادہ نہیں ہوتی۔میں اسرائیل کے بچوں کے قتل ِ عام پر بھی اتنا ہی دکھی ہوں جتنا غزہ کے بچوں نے دل گرفتہ کر رکھا ہے ۔ جن پرابھی تک خدا کا قانون لاگو نہیں ہوا عالمی سوداگران انہیں اپنے بے رحم زمینی قوانین کی زد میں کر ہلاک کر رہے ہیں۔دوا اور خوراک کی عدم دستیابی سے موت کا رقص جاری ہے لیکن پاکستان کے بڑے شہرو ں میں کھانے پینے کی دکانوں پر رش میں کوئی کمی نہیں آئی ٗ شادی بیاہ اُسی شان و شوکت سے ہو رہے ہیں تمام کاروبارِ زندگی ویسے ہی رواں دواں ہیں ۔ایک بار میں نے اپنے دوست کے گائوں میں دیکھا کہ دس گائیں کھرلی پر کھا رہی ہیں اور اتفاقا ایک کو کرنٹ لگ گیا ٗ کرنٹ لگنے والی گائے نے تڑپ تڑپ کاجان دے دی لیکن باقی نو گائیں ویسے ہی کھاتی رہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ایسا ہی نقشہ پاکستان ٗ مسلم دنیا اور نام نہاد سیکولر اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا ہے ۔اے شریف انسانو! اگر تم نے بچوں کا یہ قتلِ عام نہ روکا تو کچھ بعید نہیں کہ قدرت انسان سے مایوس ہو کر انسانوں کو بچے عطا کرنا بند کر دے اوریہ دنیا بغیر کسی ایٹمی جنگ کے ہی انسان سے خالی ہو جائے ۔اے لوگو! انسان ہیئت کے بنیاد پر انسان نہیں ہوتا بلکہ اپنے رویے کی بنیاد پر انسان ہوتا ہے اور جس کا رویہ غیرانسانی ہو جائے وہ انسان اور جانور کی درمیانی مخلوق تو ہو سکتا ہے انسان کسی صورت نہیں ہوتا اور اِس سے زیادہ غیر انسانی رویہ کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا میں اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی انسان کے بچوں کا قتل ِ عام افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ہوتا ہوا ایران ٗشام ٗمصر ٗیمن ٗلیبیا اور الجزائر سے ہوتا ہوا اس وقت غزہ کو خاک اور خون میں نہلائے ہوئے ہے لیکن دنیا بھرکے انسان اِس پر ایسے دم سادھے بیٹھ ہیں کہ تارے چلنے اور دل دھڑکنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں لیکن ضرورتوں ٗسہولتوں اورآسائشوں کی تیز گا م زندگی کے پیچھے بھاگتے تاحال محفوظ انسانوں کو کچھ سنائی نہیں دے رہا ۔ تخلیق پاکستان کی بنیاد اگر دو قومی نظریہ ہے تو کیا یہ صرف ہندوستان کی حد تک ہے یا غزہ کے مسلمان بھی اُسی مسلم امہ کا حصہ ہیں جس کے ہم دعویدار ہیں ؟ سیاسی تو چھوڑیں پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی اِس پر خاموشی اختیار کیے ہو ئے ہیں لیکن جنگ تو جنگل کی آگ ہوتی ہے اور اِس کے پھیلنے میں کبھی دیرنہیں لگتی ۔ بچوں کے ریزہ ریزہ وجود جہاں سیاست کے عالمی شعبدہ بازوں کا مذاق اڑا رہے ہیں وہیں مسلم دنیا کا وجود بھی کسی لاغر اورکمزور گدھ کی طرح غزہ کی بارود آلود فضائوں میں اپنے کھوکھلے نعروں اور جعلی تاریخی نرگسیت میں مبتلا محوِ پرواز ہے۔
میرے عزیز پاکستانیو! آپ نے پریشان نہیں ہونا بس 8 فروری کا الیکشن گزر جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ امید ہے نومنتخب وزیر اعظم پاکستان غزہ میں بچوں کے قتل عام پر ضرور آواز اٹھائیں گے لیکن سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں وہ کونسی قوت ہے جس نے وطن ِعزیز کی زبانوں کو گنگ کرکے رکھ دیا ہے؟ کیا ہم روز ِمحشر معصوم بچوں کے قتل عام پر خاموش رہ کر بھی شفاعت ِ مصطفی ؐ کی آس لگائے بیٹھے ہیں جہاں ریزہ ریزہ وجود لئے معصوم روحیں ہمارے خلاف معتبر ترین شہادتی ہوں گی ؟ کیا دنیا کا سنگدل سے سنگدل انسان بھی اِس بربریت پر خاموش رہ سکتا ہے ؟ یہودیوں کے متنازع ہولو کاسٹ میں کتنی سچائی ہے یہ یا تو ہٹلر جانتا ہے یا یہودی لیکن سوشل میڈیا کہ اِس دور میں غزہ میں مسلمان بچوں کے ہولو کاسٹ کی دنیا گواہ ہے لیکن دنیا ہے کہاں یہ تو کھرلی پر چارہ کھانے والی بے حس گائیں بھینسیں ہیں جو نہیں جانتیں کہ ان کے بچوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ آگ اگر غزہ سے نکلی تو بہت دور تک جائے گی کہ یہ 1945 ء نہیں کہ جنگ سات سال تک جاری رہے گی بلکہ پلک جھپکتے ہی یہ دنیا جس کے نقشے پر صرف بے رحم ریاستیں ہیں ختم ہو جائے گی ۔ بلاشبہ سرمائے کی دنیا میں سب کچھ بکتا ہے ٗمحبت ٗ وفا ٗ ایثار اورپھر شہید بچوں کی غیر استعمال شدہ اشیاء ہی کیوں نہ ہوں ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.