ملک کون چلا رہا ہے

82

8فروری کی تاریخ چیف جسٹس پاکستان کی ہدایت پر چیف الیکشن کمیشن اور صدر مملکت کی مشاورت کے بعد طے کی گئی ۔ جب دونوں آئینی عہدیداروں کی جانب سے تاریخ کا اعلان کر دیا گیا تو انصاف کی بلند ترین مسند پر فائز چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اس تاریخ کو پتھر کی لکیر کہہ کر اپنی تائید بھی شامل کر دی ۔ اندازہ کریں کہ ریاست کا سب سے بڑا آئینی عہدہ صدر مملکت، انتخابات سے متعلق سب سے بڑی اتھارٹی چیف الیکشن کمیشن اور مسند قضا کی سب سے بڑی ہستی چیف جسٹس پاکستان تینوں آئینی عہدے اس تاریخ کا اعلان کر رہے ہیں اور بار بار ضمانت دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مجال ہے کہ کسی کو یقین آ جائے کہ واقعی انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے ۔ پہلے کراچی میں تاجر برادری کی ایک تقریب میں نگران وزیر اعظم کو انتخابات کے التوا کا کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے ایک وکیل اپنی درخواست لے کر جاتے ہیں ۔ اس کے بعد ایک درخواست پشاور ہائیکورٹ میں دی جاتی ہے دونوں بار سپریم کورٹ اپنی آئینی پتھر کی لکیر کا تحفظ کرتے ہیں اور پوری دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ ملک میں انتخابات 8فروری کو ہی ہوں گے لیکن نہیں جناب لگ ایسے رہا ہے کہ بے یقینی کی جس دلدل میں ہمیں ایک عرصہ سے دھکیل دیا گیا ہے اس میں مزید دھنسایا جا رہا ہے تاکہ ملک میں بے یقینی کے بادل چھائے رہیں اور استحکام و انتشار کی فضا قائم رہے ۔ اس کے بعد ملک بھر کی مختلف بار ایسوسی ایشن کی جانب سے چیف الیکشن کمیشن پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ابھی وہ گرد مکمل طور پر نہیں بیٹھتی کہ ایوان بالا سے مکار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکشن کے التوا کے لئے ایک قرارداد پاس کرا لی جاتی ہے۔ جمعہ کے روز بعد نماز جمعہ فوری طور پر کبھی قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاس نہیں ہوتے اور اسی معمول کی وجہ سے بیشتر سینٹر ایوان میں نہیں تھے اور کل ملا کر 14سینیٹرز تھے جن کی موجودگی میں یہ قرارداد منظور ہوئی ۔ اس میں سے بھی نواز لیگ کے سینیٹر نے اس کی مخالفت کی جبکہ تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز خاموش رہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے سینیٹر کو شو کاز نوٹس بھی دے دیا ہے باقی گیارہ سینیٹرز رہ جاتے ہیں لہٰذا اول تو اسے ایوان بالا کے اراکین کی خواہش یا مرضی و منشا بنا کر میڈیا میں ڈھول پیٹنا ہی غلط تھا اور دوسرا اس کی اتنی اہمیت ہی نہیں تھی کہ جتنا اس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ۔

اس قرار داد میں انتخابات کے ملتوی کرنے کے لئے دو جواز تراشے گئے ایک سرد موسم اور دوسرا دہشت گردی ۔ جہاں تک سرد موسم کا تعلق ہے تو جو لوگ اس کو انتخابات موخر کرنے کی وجہ بنا رہے ہیں انھیں چاہئے تھا کہ پہلے کم از کم پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کو ہی دیکھ لیتے۔ ماضی میں ہوئے پاکستان میں بیشتر انتخابات سخت سردی کے موسم میں ہوئے ہیں۔ 1970 کے انتخابات 7 دسمبر کو، 1977 کے 7 اور 10 مارچ کو، 1985 میں 25 فروری کو، 1988 میں 16 نومبر کو، 1996 میں 3 فروری کو اور 2008 کے انتخابات 18 فروری کو منعقد ہوئے تھے۔ 1985، 1996 اور 2008 کے انتخابات تو چند ایام کے فرق سے اسی فروری کے مہینہ میں ہوئے تھے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ حال کی نسبت ماضی میں سردی بھی زیادہ پڑتی تھی لیکن ہمیں نہیں یاد کہ اس طرح کی بے معنی باتیں کہ جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو انھیں جواز بنا کر انتخابات کے التوا کی مہم چلائی گئی ہو۔ جہاں تک دہشت گردی کی بات ہے تو 18 اکتوبر 2007 محترمہ شہید بینظیر بھٹو وطن واپس آتی ہیں اور ان کے استقبالی قافلہ پر خود کش حملے ہوتے ہیں۔ ساڑھے تین سو سے زائد افراد لقمہ اجل بنتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا دہشت گردی کا واقعہ تھا لیکن اسے جواز بنا کر انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ تو دور کی بات ہے بی بی شہید تو تمام تر خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگلی صبح ہی شہید کارکنوں کے گھر تعزیت اور زخمی ہونے والوں کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ جاتی ہیں اور پھر وہ پورے ملک میں اپنی انتخابی مہم بھی چلاتی ہیں اور بالآخر 27 دسمبر کو ایک اور دہشت گرد حملے میں سیکڑوں کارکنوں کے ساتھ انھیں شہید کر دیا جاتا ہے لیکن اتنے بڑے سانحہ کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک لمحہ کے لئے بھی انتخابات ملتوی کرنے کی بات نہیںکی جاتی بلکہ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی کا وفد مسلم لیگ نواز کے پاس جا کر انھیں اس المناک سانحہ پر انتخابات کے بائیکاٹ سے روکتا ہے۔

بات دہشت گردی یا سرد گرم موسم کی نہیں ہے بلکہ بات نیت کی ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ سینٹ کی قرار داد میں بھی کہا گیا اور ویسے بھی جو لوگ ان ایشوز کو جواز بنا کر انتخابات موخر کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چھ ماہ کے لیے انتخابات ملتوی کر دیئے جائیں تو عرض ہے کہ چھ ماہ بعد مان لیا کہ سرد موسم تو نہیں ہو گا لیکن دہشت گردی کا ناسور جو گذشتہ بیس سال میں ختم نہیں ہو سکا کیا اس پر اگلے چھ مہینوں میں قابو پا لیا جائے گا تو یہ ایک انتہائی احمقانہ سوچ ہے ۔ بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ انتخابات ملتوی ہو جائیں تو پھر کون سا آئین اور کون سے انتخابات لیکن جو قوتیں یہ کام کرنا چاہتی ہیں انھیں شاید احساس نہیں کہ اس وقت ملک میں چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی کا وجود نہیں اور مارچ کے مہینہ میں آدھا سینٹ بھی خالی ہو جائے گا جبکہ ملک کا سب سے بڑا صدر مملکت کا عہدہ بھی خالی ہے تو کیا ایسے میں ملک چل سکتا ہے۔ دنیا میں تو جنگوں کے دوران بھی انتخابات ہوئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ اور امریکہ میں انتخابات ہوئے تھے تو خدارا ملک پر رحم کریں اور ملک سے بے یقینی کی فضا کو ختم کریں۔ عوام کو ان کے حق رائے دہی کی طرف جانے دیںکہ دور حاضر میں ملک و قوم کی ترقی کا جمہوریت ہی بہترین راستہ ہے۔ اس کے علاوہ تمام راستے تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.