غزہ میں جاری قیامت خیز جنگ کو تین ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تاحال اس جنگ کی شدت میں کمی نہیں آ ئی ہے۔ ان تین مہینوں میں 22 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادتیں ہو چکی ہیں۔جبکہ زخمیوں کی تعداد 58 ہزار کے قریب ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ شہید اور زخمی ہونے والوں میں 70 فیصد معصوم بچے اور نہتی خواتین شامل ہیں۔ اس تمام عرصے میں اقوام متحدہ نے کافی تحرک کا مظاہرہ کیا۔ لیکن یہ تحرک زبانی جمع خرچ تک محدود رہا۔یہ عالمی تنظیم گاہے بگاہے جنگ بندی کے حق میں بیان جاری کرتی رہی۔اس کے سربراہ نے ہزاروں معصوم بچوں اور خواتین کی ہلاکتو ں پر اظہار افسوس بھی کیا۔ اسرائیل کو تلقین کی کہ وہ زخمیوں کے لئے آنے والی امداد کی ترسیل میں رکاوٹ نہ ڈالے۔
اس سے زیادہ اقوام متحدہ کو کسی بات کی توفیق نہیں ہوسکی۔ دسمبر کے مہینے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں جنگ بندی کے حق میں ایک قراد داد بھاری اکثریت منظور کی تھی۔ اس موقع پر امریکہ اور کچھ اور ممالک نے اس قرار داد کی مخالفت کی۔ برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ہالینڈ سمیت 23 ممالک ایسے بھی تھے جنہوں نے اس قراد داد کے ضمن میں ہونے والی ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ یقینا علامتی طو ر پریہ قرار داد اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ دنیا کے 153 ممالک غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں۔تاہم عملی طور پر اس قرارد اد کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اسرائیل اس قرار داد پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ جاری و ساری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کے دوران عالمی ضمیر گہری نیند سوتا رہا ہے۔بلکہ یوں لگتا ہے کہ جب مسلمانوں کے خون ناحق کا معاملہ آتا ہے، ان کے حقوق کا ذکر چھڑتا ہے تو عالمی ضمیر کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور نام نہاد مہذب ممالک کے طرز عمل پر نگاہ ڈالیں۔ انہوں نے حقوق انسانی کے حوالے سے نت نئے اصول وضع کر رکھے ہیں۔خاص طور پر جب معاملہ خواتین اور بچوں کا ہو، تب ان حقوق کی اہمیت اور حساسیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ لیکن یہ تمام اصول اور ضابطے اس وقت دم توڑ جاتے ہیں جب کسی مسلمان ملک میں اسرائیل ، امریکہ، یا بھارت جیسا کوئی طاقت ور نہتے مسلمانوں کا لہو بہاتا ہے۔
یہی دیکھ لیجئے کہ کشمیر میں گزشتہ کئی عشروں سے بھارتی افواج ظلم ڈھا رہی ہیں ۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ عورتوں کی آبرو ریزی معمول بن چکی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو شہید کر دیا جائے یا پیلٹ گن کی مدد سے ان کے چہرے مسخ کر دئیے جائیں، عالمی ضمیر کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ فلسطین کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔غاصب اسرائیل ان پر ظلم ڈھا تا ہے لیکن اس سے کوئی جوابدہی نہیں کی جاتی۔ جوابدہی کرنے والے ممالک اور تنظیمیں اس کی پشت پر کھڑی رہتی ہیں۔غزہ میں یہ جنگ گزشتہ 90 دن سے جاری ہے، اس دوران اسرائیل نے بمباری کر کے رہائشی بستیوں کو کھنڈر بنا دیا۔ ابھی چند دن پہلے اقوام متحدہ نے خود تسلیم کیا ہے کہ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ ناقابل رہائش علاقہ بن گیا ہے۔اسرائیل نے ہسپتالوں اور ایمبولینسوں تک کو بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ یہ ہجرت کرنے والے قافلوںکو نشانہ بناتا رہاہے ۔ امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں ڈالتا رہا ہے ، لیکن آج تک اس سے کسی نے جوابدہی نہیں کی ہے۔
یہ دیکھ کر مزید دکھ ہوتا ہے کہ بطور مسلمان امہ ہم نے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے لئے کچھ نہیں کیاہے۔ یہ جو 57 مسلمان ممالک ہیں یہ فلسطینیوں کی مدد کرنے، انہیں اسرائیل کے مظالم سے نجات دلانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ مسلمان ممالک نے کس عالمی فورم پر اکھٹے ہو کر اسرائیل کے مظالم کے خلاف آ واز بلند کی ہے؟او۔آئی۔ سی اور عرب لیگ نے رسمی کاروائیوں کے علاوہ کیا اقدام اٹھائے ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ اقوام عالم کا ضمیر اگر مر چکاہے تو مسلمان ممالک کی عزت نفس، خودداری اور جذبات بھی راکھ کا ڈھیر بن چکے ہیں۔اس جنگ کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کیساتھ تعلقات بحالی کے منصوبے کو بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ یقینا یہ ایک عمدہ اقدام تھا۔ یہ خبریں بھی آئی تھیں کہ ریاض اور تہران قریب آ رہے ہیں۔ تاہم ان خوش آئند اطلاعات کے بعد عملی طور پر کچھ سامنے نہیں آیا۔
کچھ برس پہلے بیرون ملک میری ملاقات کچھ فلسطینی اساتذہ سے ہوئی تھی۔نہایت فخر سے انہوں نے بتایا تھا کہ ہم اپنے فلسطینی بچوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دلانے کے مشن پر کاربند ہیں۔ ہمیں یہ تسلی ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں تعلیم یافتہ ہوں گی۔ تعلیم اور علم کے ہتھیار کی بدولت اپنا مستقبل بنائیں گی۔آزادی کا چراغ جلائیں گی۔ ان تین مہینوں میں اسرائیل نے چن چن کر بچوں کو نشانہ بنایا ہے اور بچوں کی بڑی تعداد کو شہید کر دیا ہے۔ یہ بچے اپنی قوم اور والدین کے مستقبل کی امید تھے۔ اسرائیل نے امید کے یہ ننھے دئیے پوری طرح روشن ہونے سے پہلے ہی بجھا دئیے ہیں۔ معلوم نہیں کہ فلسطینی مسلمان اب کس سے اپنے مستقبل کی امیدیں وابستہ کرینگے۔
پاکستا ن میں بھی ہم اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہم نے اب تک غزہ میں جاری جنگ کے خلاف کوئی خاص آ واز نہیںا ٹھائی ہے۔ میڈیا نے آغاز میں پوری قوت کے ساتھ فلسطین میں ہونے والے مظالم پر آواز اٹھائی۔ لیکن اب میڈیا بھی اس جانب متوجہ نہیں۔یوں بھی سیاست کے علاوہ کوئی اور موضوع میڈیا کو کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ غزہ کی جنگ پرخبریں ، تبصرے ، تجزئیے اب کم کم ہی سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں گزشتہ کئی سالوں سے حقوق انسانی کے بہت سے علمبردار پیدا ہو گئے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ کسی عورت یا بچے پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو یہ تنظیمیں متحرک ہو جاتی ہیں۔ ان کی آ وازیں عالمی میڈیا اور عالمی تنظیموں کے کانوں تک جا پہنچتی ہیں۔ لیکن ہماری این۔ جی۔ اوزاور حقوق انسانی کی تنظیموں نے فلسطین میں ہونے والے مظالم کے خلاف آوازیں بلند نہیں کی ہیں۔کوئی احتجاج، خطوط اراسال کرنے کی مہم، جلسے جلوس ، کوئی نعرہ سننے کو نہیں ملے۔ کیا فلسطین میں ہونے والا ظلم ان کے نزدیک ظلم نہیں ہے؟ یا یہ سمجھا جائے کہ فلسطینی عورتوں اور بچوں کے حق میں آ واز اٹھانے سے بھاری بھرکم فنڈز کا حصول ممکن نہیں ہوتا؟
بطور عام شہری ہم اتنے بے بس ہیں کہ بس ظلم کا شکار فلسطینی بچوں اور عورتوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ آنسو بہانے اور فلسطینیوں کے حق میں دعا کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔یوں لگتا ہے جیسے ساری مسلم امہ کے پاس بھی اس کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
تبصرے بند ہیں.