معاشی ایمرجنسی، پُر اسرار قرار داد، گھوسٹ مضمون

83

ملکی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ابھی کچھ تھا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہونے والا ہے۔ بے یقینی سی بے یقینی ہے۔ آدمی کس پہ اعتبار کرے۔ 8 فروری کے الیکشن کے بارے میں ابہام افواہیں، سوالات، میدان خالی، کوئی گہما گہمی نہ ہلچل، الیکشن کمیشن شیڈول کا اعلان کر کے خاموش، الیکشن مخالف عناصر کی تردیدیں کر کے تھک گیا۔ انتخابی شیڈول پر عملدرآمد ہو رہا تھا۔ دسمبر کے آخری عشرے میں کچھ گہما گہمی نظر آئی۔ 4 دنوں میں 28626 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ان میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا شور اور ہاہاکار مچانے والی پارٹی پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ 2420 امیدوار تھے۔ ان میں 1996 کاغذات ریٹرننگ آفیسرز نے منظور کر لیے باقی الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق مسترد ہو گئے۔ صوبائی اسمبلیوں کیلئے 1777 میں سے صرف 379 کاغذات مسترد کیے گئے۔

جو مسترد ہوئے وہ الیکشن ٹریبونلز میں پہنچ گئے۔ ان میں بیشتر کے کاغذات بحال ہو گئے۔ ’’جو چاہے سو آپ کرے ہیں‘‘ کس کا فیصلہ درست تھا؟ الیکشن کمیشن کے وضع کردہ اصول و ضوابط ہوا میں اڑا دیے گئے۔ پی ٹی آئی کو ٹھنڈی ہوائیں تو ایک ہی کھڑکی سے آ رہی ہیں۔ خوشخبری، مژدہ کم و بیش سارے وکلا عمر ایوب، حلیم عادل، اسد قیصر، زین محمود قریشی، مہر بانو، عامر ڈوگر، عاطف خان، اصلی نسلی شیخ رشید اور ان کے بھتیجے راشد شفیق سمیت پارلیمنٹ کی تمام کرسیوں کے لیے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو اہل قرار دے دیا گیا۔ سانحہ 9 مئی میں ملوث روپوش مفرور اور اشتہاری افراد کو بھی اہل قرار دے دیا گیا تو ماشاء اللہ قیدیوں کی حکومت اور اشتہاریوں کی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ سارے ہم نوالہ ہم پیالہ پارلیمنٹ میں ہلا گلا کرنے کیلئے دستیاب ہوں گے۔ تحریک انصاف اب تک بے نشان، بلا غائب، پشاور ہائیکورٹ کے بعد داد رسی کیلئے لاہور ہائیکورٹ گئی تھی درخواست مسترد ہو گئی۔

اب سپریم کورٹ سے امیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ بیٹسمین ٹریبونلز کی مہربانیوں سے میدان میں اترنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں نہ دیکھنے والے منہ دیکھتے رہ گئے۔ الیکشن ٹریبونلز نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اسی اثنا میں الیکشن ملتوی کرانے والے سینیٹ میں نا منظور کی قرارداد لے کر آن پہنچے، لوگوں نے کہا کاغذات منظور، الیکشن غائب گزشتہ جمعہ کو دارالخواص (سینیٹ) کے 97 ارکان میں سے صرف 14 اجلاس میں شریک ہوئے کسی دلاور خان نے دلاوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشتگردی واقعات اور موسم کی ستم ظریفیوں کا ذکر کیا اور الیکشن ملتوی کرنے کی قرار داد پیش کر دی۔

ن لیگ کے واحد رکن، افنان اللہ نے قرار داد کی مخالفت کی۔ پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ اور پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا۔ اس طرح گیارہ ارکان کی ’’بھاری اکثریت‘‘ سے یہ پُر اسرار قرار داد منظور ہو گئی۔ کسی بھلے مانس نے کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی نہ کی۔ چیئرمین نے قرار داد پر دستخط کیے۔ قرارداد کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ نقول صدر،
نگراں وزیر اعظم، الیکشن کمیشن، وزارت قانون و انصاف اور دیگر متعلقہ محکموں کو ارسال کر دی گئیں۔ الیکشن شیڈول فوری تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرار داد نے کئی سوال پیدا کر دیے۔

عجلت اور پُر اسرار انداز میں پیش کی گئی اس قرار داد کے بعد لوگ پوچھنے لگے قرار داد کے پیچھے کون ہے؟ پس پردہ قوتیں کامیاب ہوں گی یا انتخابات 8 فروری ہی کو ہوں گے؟ شور مچ گیا۔ ’’کوئی تو ہے جو نظام ملکی چلا رہا ہے‘‘ شہر اقتدار میں پچھلے کئی روز سے اسی قسم کی افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے مارشل لاء کا شور سنائی دیا کسی نے ایک اہم اجلاس کی خبر سنائی جس میں چار پانچ بڑوں اور چار پانچ ان کے چھوٹوں نے شرکت کی۔ جو خبریں مبینہ طور پر روشندانوں سے چھن کر نکلیں ان میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ بھی شامل تھا۔ افواہوں سے قطع نظر ایک اہم اجلاس کا ذکر شد و مد سے کیا گیا جس میں سکیورٹی فراہمی سے متعلق مولانا فضل الرحمان کے خط پر غور بھی شامل تھا۔ البتہ کہا گیا کہ چودھری ریاست علی غصہ میں دکھائی دیے سکیورٹی سے متعلق ملک گیر اہم فیصلے کر لیے گئے۔ مختلف چینلوں کی جانب سے سروے کرانے پر پابندی لگا دی گئی۔

9 مئی کے سانحہ میں ملوث ملزموں کو الیکشن سے باہر رکھنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ خواہشوں، آرزوئوں اور محرومیوں سے بھرا سال گزر گیا۔ کھیل تماشے ختم نہیں ہوئے۔ ’’یہ بھی اک ذہنی اذیت ہے مسافر کو اگر، گھر پہنچ کر بھی یہ لگتا ہے کہ گھر جانا ہے‘‘ کھیل آئندہ دنوں میں مزید تیز ہو گا۔ ڈگڈگی بجا کر مجمع اکٹھا کرنے اور اپنی زنبیل سے کبوتر نکال کر عوام کو حیران کرنے والے پرانے شکاری وعدوں اور دعووں کے نئے جال لے کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ مفت بجلی، مفت روٹی، مفت دال، مفت کپڑا، لاکھوں مکان، کروڑوں نوکریاں، خوشحالی کے خواب لیکن بدحالی کے اژدھے منہ پھاڑے حملہ آور ہیں جنوری کا مہینہ سزاؤں اور فیصلوں کا مہینہ ہے۔ ایک سیانے تجزیہ کار کے مطابق 20 جنوری تک فیصلہ کن صورتحال سامنے آ جائے گی۔

حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ انتخابات سے پہلے طوفان بعد میں قہر نازل ہو گا۔ خواہشیں بھی کمال کی تھیں۔ ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے‘‘ اک اڑن کھٹولہ آئے گا اپنے ہینڈسم خان کو اڈیالہ جیل سے نکال کر وزیر اعظم ہائوس پہنچا دے گا۔ آرزو تھی کہ فلاں فلاں کو اسی جیل میں ڈالنا ہے۔ فلاں کو پھانسی دینی ہے۔ ایک خاتون جج کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر عتاب شاہی سے نہ بچ سکیں گے۔ توہین الیکشن کمیشن کیس میں خان اور فواد چودھری پر فرد جرم عائد ہوئی تو خان غصہ میں آپے سے باہر ہو گئے۔

سماعت کرنے والوں کو دھمکیاں ’’جیل سے باہر نکلنے دو سب پر آرٹیکل 6 لگا دوں گا‘‘ باہر کب نکلیں گے۔ توشہ خانہ کی سزا معطل ہوئی ہے ختم نہیں ہوئی۔ بدستور نا اہل ہیں۔ نیب کیسز میں 10 سالہ نا اہلی کا فیصلہ آ گیا۔ سانحہ 9 مئی میں ماسٹر مائنڈ ڈیکلیئر کر دیے گئے۔ عدت کیس کی سماعت میں شدت آ گئی۔ الیکشن لڑ نہیں سکتے۔ مخالفین سے کیسے نمٹیں گے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق آئندہ پندرہ بیس سال جیل میں ہی انجوائے کریں گے۔ آرزوں نے محرومیوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ محرومیوں کے اظہار میں بھی انتقام کے جذبات نمایاں ہیں۔ اکانوسٹ میں خان کے نام سے شائع ہونے والا مضمون سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بن گیا۔ مضمون میں اوپر والوں پر الزامات کی بارش نیچے والوں کو صلواتیں اور دھمکیاں، سیاسی حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ جیل کے قیدی کو اتنا خطرناک مضمون غیر ملکی جریدے میں شائع کرانے کی اجازت کس نے دی۔

ایک صاحب الرائے تجزیہ کار کے مطابق مضمون جمائمہ نے لکھا دوسرے نے کہا ان کے کسی وکیل نے لکھا ہو گا۔ تاہم اس گھوسٹ مضمون سے عیاں ہو گیا کہ ’’نہ وہ بدلے نہ خان بدلا‘‘ حالات جوں کے توں ہیں۔ خان اب بھی اسی زعم میں مبتلا ہے کہ ’’میں جو نہیں ہوں تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی۔ ہر حلقہ میں پی ٹی آئی کے چار امیدوار اسلام آباد سے ایک معروف سیاستدان کے مطابق عوام نظریاتی ووٹ ڈالیں گے۔ ممتاز تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کہتے ہیں کہ خان کو ختم کرنے کی تمام تدبیریں ناکام ہو گئیں۔ اندر رہے تو ستیاناس باہر آئے تو سوا ستیاناس، امریکی ٹرمپ پر 9 مئی سے ملتے جلتے الزامات تھے۔ نا اہل قرار پا گئے۔ پاکستانی ٹرمپ دو حلقوں سے کیسے الیکشن لڑے گا۔ 63 فیصد ووٹرز منحرف صرف 37 فیصد کھمبوں کو ووٹ ڈالیں گے۔

تبصرے بند ہیں.