توبہ کی نئی تھیوری، توبہ توبہ

77

سال ختم ہونے سے چند روز قبل ’’سالگرہ مبارک‘‘ کے پیغامات آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور نئے سال کے پہلے مہینے تک جاری رہتا ہے۔ ان گنت خط، کارڈ، ای میلز اور وٹس ایپ پیغامات آتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمر کا ایک اور برس بیت گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں ابھی پیدا ہی نہیں ہوا، اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی لاہور پوری طرح نہیں دیکھا جب اسے مکمل طور پر دیکھ لیں گے تو یقین آ جائے گا کہ اس دنیا میں آ چکے ہیں۔ اپنے تئیں جب سمجھتے ہیں لاہور دیکھ چکے ہیں تو کسی اخباری اشتہار سے اندازہ ہوتا ہے لاہور کچھ اور آگے جا چکا ہے اب تو لاہور وہاں پہنچ چکا ہے جو کبھی میدان جنگ تھا۔

دوسری طرف نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے لاہور کو راوی پار کیے کئی برس ہو چکے ہیں۔ اب تو لاہور نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا شروع کر دیئے کچھ دوست اس بات سے اتفاق نہیں کرتے عین ممکن ہے وہ دوست سوچتے ہوں، کوئی رنگ ساز ہو جو غیب سے نمودار ہو کر لاہور پر نیا رنگ پھیر دیتا ہو، معاملہ کچھ بھی ہو لاہور کی سیاسی تاریخ عجیب ہے۔ ایک زمانے میں اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو سر پر بٹھایا ہر گھر اور ہر در پر انکی تصویر تھی پھر لاہور نے نظام مصطفیٰ کی محبت میں بھٹو سے منہ موڑ لیا، مسجدیں بھری نظر آنے لگیں لیکن ملاوٹ ختم نہ ہوئی حالانکہ سردار الانبیاؐ نے واضح طور پر فرمایا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ دس برس اسلامی نظام کا پرچار اور پرچار کرنے والوں کا عمل اسکے خلاف دیکھتے رہے ایک جہاز اپنی سواریوں سمیت تباہ ہوا تو لاہور ایک مرتبہ پھر بدل گیا اب اسکی امیدوں کا مرکز بھٹو کی بیٹی بھٹو کی تصویر بے نظیر تھی۔ ٹھیک اٹھارہ ماہ بعد یہ تصویر ہر جگہ سے اتار دی گئی اسکی جگہ ’شرافت کی سیاست‘ والی تصویر جڑ دی گئی، شرافت ابھی پوری طرح ظاہر نہ ہوئی تھی کہ لاہور کو خیال آیا اس سے کہیں غلطی ہو گئی ہے پہلے والی تصویر ہی ٹھیک تھی۔

نئی تصویر سجا کر غلطی کی، تصویریں گڈمڈ ہوتی رہیں پھر ایک نئی تصویر سامنے آ گئی لاہور نے اسے اپنی تقریر سمجھ لیا اور اپنا تن من دھن تقدیر کے حوالے کر دیا۔ دس برس تقدیر ایک ڈگر پر رہی اب تقدیر کی کشتی ہچکولے کھا رہی ہے، کشتی میں سوراخ ہو چکے ہیں ساحل کا دور دور تک پتہ نہیں۔ اب تقدیر کو انتخابات سے جوڑ دیا گیا ہے۔ انتخابات کی کہانی آپ کے سامنے ہے جسے سمجھنے کیلئے اس سے پہلے والے انتخاب کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اپنی حلیف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر بآسانی حکومت بنا سکتی تھیں لیکن دونوں کا دامن کاٹ کر کہیں اور پیوند کر دیا گیا یوں دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ادھ ننگی سی قمیص پہننے پر مجبور ہو کر خاموش بیٹھ گئیں اور ایک تیسری جماعت کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ بتایا یہی گیا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور انکے سربراہ مع خاندان چور اور ڈکیت ہیں اب مسٹر کلین آئے ہیں جو کرپشن، اقربا پروری اور وراثت کا صفایا کریں گے۔

انکے لمبے کرتے کا حساب بھی لیا اور انکے سامنے پڑی کھجور کی گٹھلیوں کو بھی گنا جا سکے گا۔ اسطرح انکے کھائے پیئے کا حساب سامنے آ جائے گا۔ مسٹر کلین کے ساڑھے تین برس کی حکومت کیلئے ایک نہیں کئی کتب درکار ہیں، ایک کتاب تو فقط جنسی معاملات کا احاطہ کر سکے گی دوسری کتاب معاشی بد اعمالیوں سے بھر جائے گی تیسری کتاب پاکستان سے غداری اور پاکستان کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے پر ہو سکتی ہے، درجن بھر موضوعات اور کارنامے اور بھی ہیں کس کس کا ذکر کریں اور کس کس بات کو روئیں، معاملات اور حالات کو یہاں تک پہنچانے والے تمام مراعات سمیٹ کر ریٹائر ہو چکے ہیں، وہ کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہیں۔ مسٹر کلین کو چلتا کرنے کے بعد رہی سہی کسر پی ڈی ایم حکومت نے پوری کر دی تباہ حال ملک کی کابینہ مشرقی و مغربی پاکستان کی کابینہ سے بڑی تھی اٹھارہ ماہ کے عذاب کے بعد وہ رخصت ہوئے تو نیا اکھاڑہ سجا ہے جس میں درشنی پہلوان زیادہ ہیں کسی کے پلے کرتب نام کی کوئی چیز نہیں، سڑکیں انڈر پاس فلائی اوور بنانا بہت اچھی بات ہے عوام کو یہ سہولتیں ملنی چاہئیں لیکن ان تعمیرات سے اور بلند و بالا عمارات سے معیشت سنور سکتی تو دوبئی کے علاوہ دیگر خلیجی ریاستیں ویران نہ ہوتیں آج وہاں ہر طرف الو بول رہے ہیں پانچ لاکھ افراد کیلئے رہائشی عمارتیں خالی پڑی ہیں اپنے مکینوں کا راستہ دیکھ رہی ہیں ہزاروں ہوٹلز کے لاکھوں کمرے ایسے ہیں جہاں کسی نے ایک شب بھی بسر نہیں کی جبکہ ایک لاکھ سے زائد کاروباری مرکز تو صرف ایک ریاست میں ہیں جو گذشتہ کئی برس سے بند پڑے ہیں، ان تعمیرات کی جگہ اگر دستیاب خام مال کو سامنے رکھ کر انڈسٹری لگائی جاتی تو دولت کی ریل پیل ہوتی کھوے سے کھوا چھلتا نظر آتا۔ لاہور قدم بہ قدم اسی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔ بیس سے تیس منزلہ عمارتیں ہونگی۔ مکان ہونگے مکین نہ ہونگے، دکانیں ہونگی بیچیں گے کیا،ہم بناتے کیا ہیں۔ ہم بیچیں گے کیا۔ اگر مال امپورٹ کرنے پر زور ہو گا تو زر مبادلہ تو پھر بھاگ جائیگا۔

ٹھیک دو برس بعد پھر وہی کہانی ہو گی کہ ملک دیوالیہ ہونے کو ہے لہٰذا کچھ اور فروخت کرو اور قرض نہیں صرف قرض پر سود کی قسط اتارو ورنہ مہاجن قرقی لانے والا ہے۔ ٹورازم کو فروغ ایک نیا سبز باغ ہے، ٹورازم وہاں فروغ پاتا ہے جہاں سیاحوں کی دل بستگی کے تمام لوازمات بہ آسانی اور سستے داموں دستیاب ہوں جہاں امن ہو، جہاں راہزن مسافروں کی گھات میں نہ ہوں جہاں پولیس انہیں لوٹنے میں مددگار کا کردار ادا نہ کرے جہاں ایئر پورٹ پر اترنے سے لے کر روانگی تک عملہ انہیں سہولتیں دیتا نظر آئے نہ کہ انکی جیب کاٹنے کیلئے تیار ہو۔ اسلام آباد سے لیکر لاہور تک سب سے بڑی پریشانی یہی ہے یہی سوچ سندھ و خیبر کی بھی ہے یہی وجہ ہے ملک میں انتخابات کا بگل بجے عرصہ ہوا گہما گہمی شروع نہیں ہوئی۔ جنہیں اقتدار دینے کا کہا گیا ہے وہ لاہور کے ایک کونے میں دبکے ہوئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اقتدار ملنے کے بعد اسے کیسے نبھائیں گے، ملک کیسے چلائیں گے۔

ایک یہ سوچ بھی ہے کہ وزارت عظمیٰ کا خیال دل سے نکال دیا جائے اور پنجاب لے لیا جائے، جہاں وسائل ہیں الاٹ ہے پلاٹ ہے پھر سب سے بڑھ کر اٹھارھویں ترمیم کی سہولت، صوبہ قرض بھی لے سکتا ہے مرکز کی مرضی معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں لہٰذا قرض اٹھاؤ اور نظام چلاؤ مگر کب تک۔ لاہور ایک نیا رنگ اختیار کرنے لگا ہے قومی اسمبلی کا الیکشن دس کروڑ اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن امیدوار کو سات کروڑ میں پڑے گا۔ جیت گئے اور اقتدار میں آ گئے تو خرچہ حرجہ واپس مع منافع ہو گا، ہار گئے تو نقصان کا سودا۔ کرنسی کی گرتی قیمت اور مہنگائی نے ووٹ کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ آج کا ریٹ دس ہزار روپیہ ہے پہلے ایک قیمت میں دونوں اسمبلیوں کے ووٹ مل جاتے تھے اب ووٹر سیانا ہو گیا ہے وہ دو اسمبلیوں میں دو ووٹوں کا ڈبل معاوضہ مانگتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ الیکشن سے پہلے اسکی یہ چھوٹی سی لاٹری ہے جبکہ الیکشن کے بعد جیتنے والوں کی بڑی لاٹری ہو گی۔ ووٹر اب دھڑلے سے پیسے مانگتا ہے کیونکہ مارکیٹ میں ایک ذمہ دار ترین شخصیت نے ’’توبہ‘‘ کی نئی تھیوری پیش کی ہے انکی تھیوری کے مطابق ہر روز نیا گناہ کرو اور توبہ کر لو۔ کچھ دانشمند ایسے ہیں جنہوں نے الیکشن لڑنے سے توبہ کر لی ہے۔ نئی توبہ تھیوری سے ایک فرشتے کا کام ختم ہوا اسکی تو نوکری گئی منکر نکیر کی جوڑی بھی ٹوٹ گئی اِدھر بھی ڈاؤن سائزنگ ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.