اساتذہ کے نام

99

اگر نصیب میں ہوں تو والدین کے بعد اساتذہ بہت بڑی نعمت ہیں۔ مدرسے، سکول، کالج، یونیورسٹی جہاں بھی انسان نے تعلیم حاصل کی، ایک تو وہ اساتذہ ہیں اور دوسرے وہ جو تربیت کرتے ہیں۔ تربیت بھی معصومیت کی طرح ناپید ہو چلی، چالاک اور ہوشیار دنیاوی معمولات میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں مگر سادہ، بھولے اور مخلص کے سامنے باقاعدہ گناہ گار دکھائی دیتے ہیں۔ مجھے آج تک اپنی پہلی کلاس سے یونیورسٹی تک تمام اساتذہ کرام یاد ہیں۔ الحمد للہ سب کے لیکچر یاد ہیں، انداز یاد ہیں، لباس یاد ہیں اس کی وجہ ان کے انسانی رویے تھے۔ وقت بدل گیا، ملاں کبھی لائوڈ سپیکر کے خلاف ہوا، کبھی ریڈیو کے اور کبھی ٹی وی۔ جب جب خود استعمال کرنے لگا تو یہ حلال ہونے لگیں۔ اب دس سال میں دنیا یکسر بدل گئی۔ ہر چیز دنیا کے تمام مکاتب فکر، اطلاعات جھوٹی سچی، سب موبائل کی صورت ہاتھ میں آ گئیں مگر تربیت کی جگہ کسی جدیدیت کو نصیب ہوئی اور نہ ہی جدیدیت اس پر حاوی ہو سکی۔ مجھے انتہائی دکھ ہوتا ہے جب آئے دن قرآن عظیم کی تعلیم پر سوشل میڈیا میں بچوں پر تشدد کی ویڈیوز دیکھتا ہوں۔ انسان کبھی بُری خبر سنانے والے کا چہرہ نہیں بھول پاتا، وقت نہ ماحول تو دوران تعلیم رویہ کیسے بھول پائے گا؟ اگر سبق کے ساتھ تشدد ہم آہنگ اور یادوں میں ہے تو کبھی اس سبق پر عمل نہیں کر سکے گا۔ رویے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انسان کی تعلیم مدرسے، سکول، تعلیمی ادارے کی ہو، تربیت گھر، گلی، محلے اور وابستہ لوگوں کی وجہ سے ہوا کرتی ہے میرے لڑکپن، بڑے بھائی کے استاد محمد اسحاق پہلوان ہمارے بزرگ ہیں۔ معظم بھائی (معظم بٹ جیل روڈ لاہور کے چیئرمین) کے استاد اور شہرہ آفاق باڈی بلڈر حافظ عزیز اللہ کے والد صاحب تھے جنہوں نے نماز، ورزش کے علاوہ وارث شاہ اور دیگر صوفی بزرگوں کے اسباق ازبر کرائے۔ مثلاً استاد کالی داس کا شعر پڑھتے ”کالی کالیاں نال وگڑ جائے تے بھگیاں نال سنوار لیئے“ (اگر جوانی میں کوتاہیاں ہو جائیں تو سفید بالوں یعنی بڑھاپے میں زندگی سنوار لیں)۔ استاد اسحاق پہلوان نے ایک حکایت سنائی کہ ایک خطے میں قحط پڑ گیا، لوگ لڑکیوں کی جسم فروشی پر اتر آئے۔ ایک درویش منش کی بیٹی نے بھی فاقوں سے تنگ آ کر اپنے والد سے اجازت طلب کی۔ بھوک سے تنگ والد نے اجازت دے دی۔ اس بازار میں پہنچ گئی جہاں دھندہ ہوتا تھا۔ شام کو واپس آئی۔ والد نے پوچھا تو جواب دیا۔ مول لگنا تو دور کی بات میری طرف تو کسی نے دیکھا تک نہیں۔ بزرگ نے جواب دیا، بیٹی میں نے ساری زندگی کسی کی طرف نہیں دیکھا میری بیٹی کی طرف کون دیکھ سکتا تھا۔ میرے والدین، بڑے بھائی گلزار (گلزار بٹ سپرنٹنڈنٹ جیل)، پا جی اعظم صاحب (محمد اعظم بٹ) معظم بھائی اور بڑی بہن استاد بھی تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے ہمارے پرانے گھر کے صحن میں حاجی اعظم صاحب اباجی کو اخبار میں چھپنے والا ایک ریٹائرڈ ایس ایچ او کا بیان کردہ واقعہ سنا رہے تھے کہ ”جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، قتل و غارت گری اور لوٹ مار جاری تھی۔ ایک محلے پر بلوائیوں نے حملہ کیا، ایک سکھ لڑکی گھر سے عزت اور جان بچا کر بھاگی، وہ بھاگتے ہوئے پولیس کی پناہ میں آ گئی۔ گھر والوں کو محلے داروں نے بتایا کہ پولیس والوں کے ساتھ چلی گئی تھی۔ ایس ایچ او نے اسکے گھر والوں سے 25000 روپے مانگ لیے۔ خیر کسی نہ کسی طرح انہوں نے انتظام کر کے 25ہزار روپے دیئے اور بیٹی گھر لے آئے“۔ ایس ایچ او لکھتا ہے کہ ”آج 30 سال ہو گئے، اس کی بیٹی اغوا ہو گئی ہے، اغوا کنندگان نے 25000 روپے ہی مانگے ہیں مگر اس کے پاس 30 سال بعد بھی 25 ہزار نہیں ہیں۔ کردار گنبد کی آواز ہے“۔

حاجی محمد سعید بھٹی نے بھی ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر علی شریعتی ایسے لوگوں سے مستفید ہونے کے مواقع دیئے۔ محمد ایوب جن کو لوگ ایوب تھانیدار بھی کہتے وہ بائیں بازو کے دانشور تھے۔ اپنے آپ کو پنجاب کی سب سے گھٹیا قوم مصلی کہتے، تھے وہ محمد ایوب خان بسرا، انہوں نے بہت کچھ سمجھایا۔ سیاست، ثقافت اور نظریات، انسانی ارتقا کی کہانیاں، کتابیں وہ پیدل چلتے چلتے بولتے چلے جاتے۔ ایوب صاحب نے ایک ایرانی حکایت سنائی کہ شام ایک مولانا دستار اور جبہ میں ملبوس عورتوں کے بازار چلے گئے۔ جہاں پر مہلائیں اور بدن فروش طوائفیں بیٹھا کرتی تھیں۔ کپڑوں کے باوجود نمائشی اہتمام تھا۔ مولانا سرتاپا سٹی سکین کرتی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے تو منتظر مہلا/ بیوہ نے پوچھا ”ارے حضرت کیا دیکھ رہے ہیں؟ میں وہی ہوں جو نظر آ رہی ہوں مگر آپ وہ نہیں ہیں جو دستار اور جبہ میں سمیت نظر آ رہے ہیں“۔ ڈاکٹر مبشر حسن اپنی کسی بھی تحریر کو شائع کرنے سے پہلے ایوب صاحب سے نظرثانی ضرور کراتے۔ ایک دن ہم باغبانپورہ سے سیٹلائٹ ٹائون (میرے گھر) پیدل آ رہے تھے۔ راستے میں گھنٹہ گھر چوک آیا۔ چاچا بلو گھنٹہ گھریا نے روک لیا کہ ایوب صاحب کھانا کھائیں۔ پاء جی اعظم کا بھائی شہزادہ صاحب کا بیٹا آصف صاحب بھی ہے، انہوں نے شکریہ ادا کیا اور ہم آگے آ گئے۔ میں نے کہا پاء جی مجھے تو بڑی بھوک لگی ہے۔ کھانے کا وقت ہے چاچا بلو پہلوان گھنٹہ گھریا کھانا بھی اچھا کھلاتا۔ ایوب صاحب ساتھ ہی گھنٹہ گھر کے نیچے ہوٹل میں چلے گئے۔ مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ گھنٹہ گھر کے اندر ہوٹل بھی ہے جو تیار کھانوں کا ہوٹل تھا۔ دیسی کھانے، گردہ قیمہ، سبزی گوشت، دال ماش، قورمہ، پلائو، روٹی وغیرہ۔ ہم نے کھانا کھایا۔ یہ بات 38سال پرانی ہو گی۔ میں نے پیسے دینے چاہے مگر ایوب صاحب بڑے بھائی تھے انہوں نے چپکے سے دکاندار ہوٹل مالک کو شائد 30/40 روپے دے دیئے اور ساتھ دو تین بندوں کی میز کی طرف اشارہ کیا کہ ان کا بل بھی رکھ لو۔ جب ہم باہر نکلے تو میں نے ایوب صاحب سے کہا کہ پاء جی یہ ان سے بھی نہ بل لے لے، ہم ان کو بتا دیں کہ آپ کا بل ہو گیا ہے۔ ایوب صاحب اللہ جنت نصیب کرے۔ مسکرا دیئے اور کہا کہ اس سے بہتر ہے ہم ان سے جا کر کہیں ”آپ ہمیں پیسے دے دیں ہم آپ کا بل دے آئے ہیں۔“ وہ دن اور آج کا دن میں اپنے بچوں کے ساتھ کبھی ہوں تو بل دیتے وقت ان کو بھی بھنک نہیں پڑنے دیتا اور نہ کسی دوست کو اور خاموشی بل ادا کر دیا کرتا ہوں۔ چہ جائیکہ میں نے کھانے کا بل دینے کی خاطر لوگوں کو ہنگامہ برپا کرتے دیکھا۔ ایک دفعہ ایوب صاحب سے میرے دوست چودھری ندیم گورایہ کہنے لگے کہ پاء جی آپ کی تو بہت بڑی بڑی شخصیات سے دوستیاں رہی ہیں۔ آپ نے کھٹیا کچھ نہیں (کمایا کچھ نہیں)۔ انہوں نے 10/12 گالیاں دیتے ہوئے کہ میں کسی فلاں (گالی) سول جج، پٹواری، مجسٹریٹ، وزیر، ڈی سی، پولیس والے کے دروازے پر نہیں کھڑا اس سے بڑھ کر مجھے کوئی کھٹی (کمائی) بتا دو۔ جو میری ندیم گورایہ تربیت بھی ہوئی اور جواب بھی۔ دراصل یہ والدین ہیں جنہوں نے بچوں کو سنبھالا دیئے رکھا یا وہ اساتذہ جو والدین کا روپ ہوتے ہیں ورنہ پُرتشدد تعلیم والوں نے اگر تعلیم نہیں تو کم از کم دوران تعلیم ہونے والے تشدد کی وجہ سے اس پر عمل کرنے سے کوسوں دور رکھا۔ خراج تحسین ہے ان اساتذہ کو جو والدین کا کردار ادا کرتے ہیں۔ خاندان جن کی روایات ہوتی ہیں والدین جو اولاد کی صورت میں مثبت انداز اور طرز زندگی میں اپنا سفر جاری رکھتے ہیں، تعلیم کے ساتھ تربیت بہت اہم ہیں اور تربیت کا کوئی بدل نہیں۔

تبصرے بند ہیں.