ہمارے ہاں لوٹوں کی بہت قدر و قیمت ہے جب کہ باقی دنیا میں اب لوٹوں کی وہ قدر قیمت نہیں رہی۔ لوٹا تو بے چارہ ایک برتن تھا اور ہے جسے انسان نے اپنی ضرورت کے تحت ایجاد کیا۔ ابتدائی دور میں لوٹے مٹی سے تیار کئے گئے، جیسے جیسے انسان نے اپنی ارتقائی ترقی کے مختلف ادوار طے کئے اپنی ایجادات کو بہتر سے بہتر کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں لوٹے کے ساتھ بھی یہی ہوا مٹی کے بعد لوٹے کو دھات سے بنایا گیا ہر انسان نے اپنی حیثیت کے مطابق دھاتوں کا انتخاب کیا۔ عام طور پر تانبہ اور پیتل سے لوٹے بنائے جاتے تھے لیکن جب سے پلاسٹک کا دانہ ایجاد ہوا ہے تب سے زیادہ تر لوٹے پلاسٹک سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ امیر لوگ اب زیادہ تر چاندی کے لوٹے طاقوں کو سجانے کے لئے یا پھر ڈیکوریشن پیس کے طور پراپنے ڈرائنگ روموں کی زینت بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ کہیں یہ سونے سے بھی بنائے جاتے ہیں، لیکن ایک چیز جو بتانا ضروری ہے وہ ہے کہ اب لوٹے پانی پینے کے لئے صرف غریب لوگ ہی ا ستعمال کرتے ہیں، امراء کے لئے ا س کا استعمال بالکل ہی بدل چکا ہے جب کہ پاکستان میں تو لوٹے ایک جدید تشبیہ کے لئے مقبول ہیں۔ انسان شائد بھول چکے ہیں کہ لوٹے نے ماضی میں ان کی کیا کیا خدمت کی، ان خدمات کو مختصراً بیان کرنا ضروری ہے تا کہ انسان کو اپنا ماضی یاد آ جائے۔ ابتدائی زمانے میں پانی پینے اور پیمانے کے طور پر لوٹے استعمال ہوتے تھے، اس کے بعد غسل خانوں میں صفائی اور طہارت کے لئے لوٹے کی خدمات حاصل کی گئیں۔ عملی طور پر لوٹے کی مقبولیت کو سب سے زیادہ نقصان گلاس نے پہنچایا کیونکہ جب گلاس دریافت ہوا تو انسانوں نے لوٹے سے پانی پینا ترک کر دیا۔ اسی طرح جب نلکے، شاور اور چکوری ایجاد کئے گئے تو صفائی کے لئے امراء کی نظروں میں لوٹے کی وقعت اور بھی کم ہو گئی البتہ ابھی تک ان کے غسل خانوں اور بیت الخلاؤں میں لوٹا خدمت گزاری کرتا رہتا ہے تاہم اہمیت بہت کم ہو گئی ہے۔
لوٹوں کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو پاکستان میں پوچھی جائے یہاں لوٹے وی وی آئی پی ہوتے ہیں۔ جو قدر و قیمت پاکستان میں آج کل لوٹوں کی ہے وہ اور کہیں بھی نہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کے سیاست دان بہت ابن الوقت اور مفاد پرست ہیں جو سیاسی موسم میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ اپنے رنگ اور وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں، یہاں کے بہت سے سیاست دان اقتدار کا مستقل مزہ لینے کے لئے اپنا سیاسی قبلہ بدلتے رہتے ہیں۔ لوٹے یہاں کے بڑے بڑے ایوانوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں، ایک سے ایک بڑھ کر وی وی آئی پی لوٹا۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہاں عرفِ عام لوٹوں کو موقع پرستی سے تشبیہ دی جاتی ہے کیونکہ یہاں بعض سیاست دان اقتدار کے لئے ہوا کا رخ دیکھ کر اپنی وفاداریاں بدلتے ہیں انہیں لوٹا بھی کہا جاتا ہے حالانکہ ارتقائی دور میں لوٹے نے جتنی بھی اپنی شکلیں تبدیل کی ہیں وہ بہتری کے لئے اور خود کو مناسب طور پر کارآمد بنانے کے لئے نہ کہ اپنے مفاد کے لئے۔ جب کہ آج کے لوٹے سیاست دان اپنی مجبوری کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ہم سیاست کرتے ہیں اقتدار حاص کرنے کے لئے اگر اقتدار نہ ملے تو ہم کیوں کروڑوں اربوں روپے اپنی جیب سے خرچ کریں۔ کیا پارٹی اور پارٹی لیڈر ہمارے انتخابات کے اخراجات برداشت کرتے ہیں؟ جب کہ بیرونی دنیا میں الیکشن کے اخراجات پارٹی کرتی ہے دوسرا بیرونِ ملک کے لیڈر ایک مخصوص مدت کے لئے لیڈر بن جاتے ہیں، وہ کبھی پارٹی کو اپنی جاگیر نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس پاکستان میں پارٹی کے قائد ٹکٹ دینے کے نام پر ہم سے چندے وصول کر کے اپنے ذاتی اور پارٹی اکاؤنٹوں میں رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے لیڈر اپنے اقتدار کے حصول اور اسے دوام بخشنے کے لئے بیرون ملک اورا ندرون ملک ڈیل کے لئے ترلے کرتے رہتے ہیں تاکہ جب انہیں اقتدار مل جائے تو جو ملکی خزانے ہیں ان کے تصرف میں آ جائیں اور وہ جیسے چاہیں انہیں استعمال کریں، جس میں چاہیں بانٹیں، جسے چاہیں نوازیں، قومی خزانے سے من چاہا سلوک کریں۔ تو پھر ہم کیوں نہ اقتدار والوں سے ملیں تا کہ ہمیں بھی ہمارا حصہ ملتا رہے بغیر اقتدار کے تو ہمیں کوئی سلام بھی نہیں کرتا۔
یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں زقندیں بھرتے رہتے ہیں۔ جس کے برسرِ اقتدار آنے کی توقع ہوتی ہے لوٹے بن کر وہی پارٹی جوائن کر لیتے ہیں۔ اس وقت ہماری جمہوریت کا جو حال ہے ایسے ہی لوٹوں کے مرہونِ منت ہے۔ ہماری بد قسمتی کی انتہا ہے کہ ہمارے سیاست دان کرپٹ، بد کردار، موقع پرست، مفاد پرست اور ملک فروش ہیں۔ یہ پارٹیاں بدلنے والے لیڈر سب کے سب اقتدار برائے مالی منفعت کے طلبگار ہیں۔ حکومت ختم ہوتے ہی یہ نئی برسرِ اقتدار آنے والی پارٹی میں جا بسیرا کرتے ہیں۔ یہ لوٹے سیاستدان یہ نہیں سوچتے کہ کل انہوں نے کیا بات کی تھی اور آج وہ کیا بات کر رہے ہیں۔ سیاست میں غیرت کا فقدان لمحہ فکریہ ہے۔ یہ لوٹے سیاست دان خود اپنی حرکتوں اور کارروائیوں سے پوری قوم کو بار بار اپنے بارے میں مطلع کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مخالف اور میڈیا روز ان کے بارے میں انکشافات کرتے رہتے ہیں، اس طرح ان میں سے کوئی بھی عوام سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ لیکن جس قوم کے چہرے اور عقل دونوں کی آنکھوں میں اندھیرا ہو وہ ان قومی چوروں کونہیں دیکھ سکتی اور وہ انہی سے امیدیں باندھ لیتی ہے کیونکہ اس کی عقل بھی اندھی ہو چکی ہے۔اب سیاسی روایات اس حد تک بدل گئی ہیں کہ جن پر بڑے بڑے الزام ہوتے ہیں عوام بھی ایسے لیڈروں کو قبول کرتے ہیں اور اس کے بعد یہ ا مید رکھتے ہیں کہ ان کے حالات بدل جائیں گے۔ جیسے لوگ ویسے لیڈر اور جیسے لیڈر ویسی امیدیں۔ اس لئے اگر ہم واقعی ہی پاکستان میں سیاست اور عوامی حکمرانی کے اصول کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا۔ جب تک قومی معاملات میں فیصلہ کا حق اور اختیار خود ہمارے ہاتھوں میں یا انتخابات کی کنجی ووٹروں کے پاس نہیں ہو گی ہماری سیاست طوائف الملوکی کا منظر پیش کرے گی، جو اس وقت ہماری سیاست میں جمہوریت کے نام پر موجود ہے۔ ہماری سیاست میں یہ شعور آگے بڑھنا چاہئے کہ ہماری جمہوری سیاست اس وقت ایک قیدی کی صورت میں موجود ہے، جس میں عوامی مفادات اور قانون کی حکمرانی کا سوال بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.