26,9 اکتوبر اور 12 نومبر کو بالترتیب شائع ہونے والے کالمز ”مشرق وسطیٰ میں دو نظریوں کی جنگ اب بہت ہوچکا“، (دجالی منصوبہ) اور”اہداف، نکبہ، بے دخلی (گریٹر اسرائیل)“ میں غزہ کے موجودہ سلگتے ہوئے منظرنامے کا تجزیہ کر دیا تھا۔ جذباتی انداز اپنانے کے بجائے ہمیں تاریخی و زمینی حقائق کے تناظر میں ادراک کرنا ہوگا کہ یہ سب کچھ اس باطل نظریے کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے جس کے تحت ایک مسیحا دجال آئے گا جو پوری دنیا میں ان کی حکومت قائم کرے گا۔ ایک بات راقم نے زور دے کر کہی تھی کہ جنگوں کی Strategic Depth پر کتنی ہی عمیق نظر رکھنے والا منصوبہ ساز یا تجزیہ کار ہی کیوں نہ ہو؟ وہ اس وقت تک غزہ کے خلاف جاری جنگ کی درپردہ سازشوں و حقائق کو نہیں سمجھ سکتا جب تک کہ وہ آخری معرکوں (غلبہ اسلام) سے متعلق احادیث مبارکہ کے تناظر میں نہیں دیکھے گا۔ ورنہ داعش کے فتنے کی طرح فکری انتشار کا شکار ہوتا رہیگا۔ اسرائیل و طاغوتی طاقتوں کی جانب سے حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی دراصل ایک شیطانی چال تھی۔ جس کی آڑ میں جہاں ایک جانب اپنے قیدی چھڑوانا چاہتی تھیں تو دوسری جانب وقفہ کے دوران اگلے حملے کے لیے نئی منصوبہ بندی بھی تشکیل دے رہی تھیں۔ یہ کیسی عارضی جنگ بندی تھی 150 فلسطینی قیدی چھوڑنے کے بعد بقول مرکز اطلاعات فلسطین کے خواتین سمیت 65 مزید فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دوبارہ گرفتار ہونے والوں میں وہ اسیر بھی شامل ہیں جو حال ہی میں اسرائیلی جیلوں سے اپنی سزا پوری کرکے رہا ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک 3000 فلسطینی گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ عارضی جنگ کے بعد صہیونی رقصِ ابلیس ایک دفعہ پھر پوری فرعونیت کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ اب اس جنگ کا دائرہ کار شمالی غزہ سے جنوبی غزہ تک پھیل گیا ہے۔
اسرائیل انتہائی بربریت و سفاکیت کا مظاہرہ کیوں کر رہا ہے؟۔ صہیونی دہشت گردی کے ناسور کو سمجھنے کے لیے چودہ صدیاں پیچھے جانا پڑے گا۔ جب مکہ کی وادیوں میں مجاہد اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ توحید (قرآن وسنت) دی۔ تو مشرکین کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو گیا۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب ان کے باطل افکار کے خاتمے کا وقت آگیا ہے۔ تب نہتے و بے یار و مددگار اہل توحید پر ایسے ایسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے کہ تاریخ ایسی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سیدنا بلا ل حبشیؓ کو گلے میں رسی ڈال کر مکے کی گلیوں اور پتھروں پر گھسیٹا جاتا۔ تپتی ریت پر لٹا کر مشکیں باندھ کر گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ کر لاٹھیوں ڈنڈوں سے پیٹا جاتا۔ صحابی رسول حبابؓ بن ارت کو جلتے کوئلوں پر لٹایا جاتا چربی جلنے کی بو آ رہی ہوتی، آگ میں لوہا گرم کر کے ان کے سر کو داغا جاتا۔ مردود ابو جہل نے اسلام کی پہلی شہید سمیہ رضی اللہ عنہا کو برچھا مار کر شہید کر دیا۔ کیا کوئی ان کی تکالیف کا اندازہ کر سکتا ہے؟ سیدنا عثمان شہیدؓ کو ان کے چچا کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا۔ حتیٰ کہ دعوتِ توحید کی قیادت (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) بھی ان کی سرکشیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ سجدے کی حالت میں تاجدار ختم نبوت پر نجاست بھری اوجھڑی ڈالی گئی، گردن میں چادر لپیٹ کر سانس لینا دو بھر کر دیا گیا۔ پتھر مار کر لہولہان کر دیا گیا۔چاروں جانب کوئی ریاست، ملک مدد گار نہیں تھا۔ اپنے جان نثاروں پر جبر و استبداد ہوتا دیکھ کر دل کڑھتا رہتا، آنسو جاری رہتے۔ لامحالہ آج ایک دفعہ پھر ایسی ہی صورتحال (اپنے مر مٹنے کا خوف) کا سامنا یہودیوں کو ہے۔ تب اس وقت کے مخدوش ترین حالات میں بھی مجاہد اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و بصیرت کا ساتھ نہیں چھوڑا اور نہ ہی”آپریشن طوفان المکہ“ لانچ کیا۔ بلکہ خاموشی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت پھر چند ماہ بعد دوسری ہجرت اور آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری ہجرت مدینہ کی طرف کی۔ خیال رہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر بھی چاروں طرف سے مشرکین کے محاصرے میں تھا۔ یہ اندھی جذباتیت کا وقت نہیں اور نہ ہی فتویٰ بازی کا، بلکہ بصیرت اور حکمت اختیار کرنے کا ہے۔ راقم کا شروع دن سے دوٹوک مؤقف ہے کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی مقدس جدوجہد میں کوئی فرق نہیں۔ فلسطینیوں کی جدوجہد پر تنقید تو بہت دور کی بات ہے اس پر شک کرنا بھی راقم کے ہاں گناہ کبیرہ ہے۔ اختلاف فلسطینیوں کی جدوجہد پر نہیں بلکہ طوفان الاقصیٰ کے طریقہ کار پر ہے۔ جس کا خمیازہ اہل غزہ کو اور سامنا امت مسلمہ کو کرنا پڑ رہا ہے۔ 5ہزار راکٹ جو امریکی آئرن ڈوم سسٹم کا شکار ہوئے اور جو بچ گئے پہاڑوں اور صحرا کی نذر ہو گئے۔ بدلے میں 60 ہزار لاشیں (16ہزار شہادتیں، 35 ہزار زخمی، 6 ہزار لاپتہ اور الٹا 3000 قیدی) ملیں۔ دنیاوی زندگی کا کوئی بھی پہلو (عبادات، حقو ق العباد یا جہادی معرکوں) سے متعلق ہو۔ جب بھی”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ“ سے ہٹ کر اپنے نفس کے تابع ہو کر کیا جائے تو وہ سوائے خسارہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ ”اگر غزہ پر بمباری بند نہ ہوئی تو شاید سرحدی بندشیں بھی ختم ہو جائیں، نگران وزیراعظم“۔ ”افغان نوجوانوں کو فخر ہو گا، اگر وہ فلسطین کی آزادی کے اس حصے کا منصوبہ بنے“، افغان وزیر خارجہ۔ ان بیانات نے تل ابیب سے لیکر پینٹاگان تک تھرتلی مچا دی ہے۔ اگر ایسا کوئی بھی منظرنامہ بنتا ہے تو پھر اس جنگ کے اثرات براہ راست پاکستان والحرمین شریفین تک آئیں گے۔ کبھی نہ بھولنا اے امت محمدیہﷺ: پہلی دو جنگیں عظیم غیر مسلموں کے درمیان لڑی گئیں۔ تیسری خون ریز عالمی جنگ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پوری قوت کے ساتھ برپا ہو گی۔ اور ملعون یہودی اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.