جب سٹالن کا انتقال ہوا تو اس کے جانشین خروشیف نے کمیونسٹ پارٹی کی کانفرنس میں سٹالن کے جرائم بیان کرنا شروع کر دیے،
وہاں موجود ہر شخص حیران تھا کہ ایک لیڈر پچھلے لیڈر پر اتنی سخت تنقید کیسے کر سکتا ہے۔
تقریر کے دوران جب ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا گیا تھا تو اچانک کسی نے خروشیف پر آواز لگائی،
اس وقت آپ کہاں تھے؟
ہال میں خاموشی چھا گئی۔
خروشیف نے مجمع سے کہا: یہ سوال کس نے کیا؟ کسی نے جواب نہیں دیا
اس نے کہا: جس نے یہ سوال کیا وہ کھڑا ہو جائے، کوئی کھڑا نہ ہوا۔
خروشیف نے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ کہا: اس وقت میں آپ کی جگہ پر بیٹھا تھا
قارئین آج صورتحال بھی خروشیف جیسی ہے عوام پستے ہیں لیکن کوئی بولتا نہیں کیونکہ انقلاب بھی وہاں آتے ہیں جہاں سمجھ بوجھ ہویہاں تو آپا داپی ہے ہر بندے کو روٹی کے لالے پڑے ہیں صبح کھالیں تو رات کا فکر ہوتا ہے رات کو کھا لیں تو دن کی فکر ہو تی ہے سوچنے کی ”حس“ ہی ختم ہو کر رہ گئی ہے دوسری طرف کل کے ہیرو ”زیرو“ بن رہے ہیں اور کل کے زیرو”ہیرو“بن رہے ہیں اقتدار کیلئے ملک میں عجیب تماشا لگا ہوا ہے ایک پارٹی دو تہائی اکثریت مانگ رہی ہے دوسری پکی پکائی روٹی چاہتی ہے تیسری پارٹی کاقصہ ہی تمام ہو گیا ہے جماعت اسلامی کا ہمیشہ سے ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے کہ ہم اقتدار میں آئیں گے تو کرپشن ختم ہو گی جبکہ ہماری تیسری نسل جوان ہو گئی ہے نعرے سنتے سنتے ہوا کچھ نہیں جو آیا بے چارے عوام کو لفظوں کے گورکھ دھندے میں الجھا کر اپنے بینک بیلنس جائیداودں میں اضافہ کرتا گیا عوام غریب سے غریب تراور سیاستدان امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے، عوام کو واہ واہ کرنے سے فرصت نہیں ہر کسی کے چکر میں آ جاتے ہیں بولتے ہیں نہ چیخ پکار کرتے ہیں سیاسی مداریوں نے ملک میں سرکس لگا رکھی ہے فروری میں لگنے والے تھیٹر کیلئے میدان سجایا جا رہا ہے اس کے لئے پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ایک دوسرے کیخلاف بیان بازی کی جا رہی ہے بڑے بڑے جلسوں میں سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں تلاویں ڈال کرکٹتی پتنگیں پکڑی جا رہی ہیں، آج گرم سیاسی حالات اور تناؤ کے ماحول نظرآرہے ہیں، انتخابی مہم میں مخالف سیاست دانوں کی کردارکشی وتیرہ بن گئی ہے ایک دوسرے پر ایسے ایسے بم گرائے جا رہے ہیں لوگ ہیروشیما کو بھی بول گئے دوسروں کو ادب احترام کا سبق سکھانے والے خود تمام اخلاقیات کو بھول گئے ہیں مغرب کی مثالیں دی جا رہی ہیں لیکن کیا مغرب میں ایسی سیاست ہو تی ہے؟ اب کی بار پھر ملک اور قوم کیلئے کوئی منصوبہ تیار نہیں کیاجا رہا، بے روزگاری کے خاتمے کی کوئی راہ تلاش نہیں کی جا رہی، 2018 میں پاکستان میں تبدیلی کا نعرہ گونج رہا تھاجو بے سود ثابت ہوا، ہماری تاریخ ”باں باں“ کر رہی ہے، عوام خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں،عوام ہر دور کو بھول جاتے ہیں، اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ ملک اچھی قیادت سے محروم ہے اور یہی ہمارا المیہ ہے دیگر انتخابات کی طرح آئندہ انتخابی مہم کیلئے سیاست دان عوام سے بڑے وعدے کر رہے ہیں، دھاڑیں مار مار کر عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے کیے جا رہے ہیں، نت نئے خواب دیکھنے والی نسل در بدر ہو رہی ہے، آج تک مافیاز کی سیاست ختم نہیں ہوسکی، کوئی غریب کا بچہ قومی اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا، کرپشن،مہنگائی کا عذاب ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ووٹ دیں، اس عذاب سے عوام کو نجات دلائینگے،عوام کا مہنگائی، بیروزگاری کی وجہ سے جینا دشوار ہوکر رہ گیا،کوئی بھی اس ملک اور عوام کی حالت کو بہتر نہیں کر سکا،ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں الزمات کی بوچھا ڑکی جا رہی ہے، ”لکن“ چھپائی کا یہ کھیل عوام کئی سال سے دیکھ رہے ہیں، نئے نعرے اور نام سے عوام کو پھرلارے لپے دئیے جا رہے ہیں، آتے جاتے سیاستدانوں کی طرف سے اب چہرے کی تبدیلی اور اقتدار کے حصول کو اصل مقصد بنالیا گیا ہے،سوچ نہ رکھنے والے عوام کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک ان ہی لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہیں گے جن سے مایوسیوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا، افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان میں نظریہ، منشور، قابلیت، ایجنڈے اور کارکردگی کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی، ذات پات اور فرقوں کے نام پر لاشے گرائے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے ملک پر گنے چنے خاندانوں کا آج تک کنٹرول ہے، ملکی غیر یقینی صورتحال کے باعث کرپشن کے تین سو سے زائد میگا مقدمات دفن ہو چکے ہیں، ملک کو معاشی لحاظ سے مضبوط بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کرپٹ افراد سے پاک حکومت بر سر اقتدار نہیں آجاتی، کرپشن ناسور کی شکل اختیارکر چکی ہے جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اورکرپشن ہی ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ماضی میں تمام حکمرانوں نے بلند بانگ دعوے تو بہت کئے مگر یہی حکومتیں اپنے اپنے حواریوں کے دفاع میں مصروف ہیں جو جتنا بڑا چور لٹیرا اور کرپٹ ہوتا ہے وہ اپنے اثرو رسوخ کے باعث اتنے ہی بڑے عہدوں پر فائز ہو جاتا ہے،ملک میں چور بازاری کا یہ سلسلہ بند ہو نا چاہئے، کرپٹ افراد کی جگہ اسمبلیاں نہیں بلکہ جیل ہونی چاہیے، ایسے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے نااہل قرار دیا جانا چاہئے، ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے تشکیل دیے گے اداروں کو مضبوط کیا جائے، انھیں ہر قسم کے سیاسی و غیر سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے جب تک کرپشن کی روک تھام کرنے والے ادارے مضبوط نہیں ہونگے اس وقت تک کوئی بھی حکومت کرپشن کا خاتمہ نہیں کرسکتی، ملک و قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ پاکستان میں جس بھی پارٹی نے حکومت قائم کی اس نے نیب سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا ہے آج گلی گلی خروشیف براجمان ہیں اور وہ ہر دوسرے پاکستانی پر ہنس رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.