توبہ اور توبہ شکنی

58

توبہ کی حیثیت ایک وعدے کی ہے…… اور توبہ شکنی کی حیثیت وعدہ خلافی کی سی!! جب انسان توبہ کرتا ہے تو اپنے ساتھ، اپنی روح کے ساتھ، اپنے ضمیر اور اپنے دل کے ساتھ…… اور ساتھ ہی ساتھ دل میں بسنے والی ہستی کے ساتھ ایک وعدہ بھی کرتا ہے۔ وعدہ یہ کہ جو کچھ ہوا خلافِ اصول اور وعدہ ہوا، لیکن وعدہ یہ ہے کہ آئندہ جو کچھ ہو گا، وعدے کے مطابق ہو گا۔ گذرے ہوئے کل پر ندامت اور آنے والے کل پر استقامت کا عزم، توبہ ہے۔ ندامت کیلئے محض الفاظ کافی نہیں ہوتے۔ عام حالات میں بھی جب کوئی شخص نادم ہو تو الفاظ سے زیادہ اس کی باڈی لینگوئج یعنی حرکات و سکنات گواہی دیتے ہیں کہ ندامت کا اظہار کرنے والا خلوصِ دل سے اپنی غلطی کا اقرار بھی کر رہا ہے۔ عزم کیلئے محض اعلان کافی نہیں ہوتا…… باعزم شخص عمل میں مستعد دکھائی دیتا ہے۔

اعمال کی دنیا میں توبہ کا وہی مقام ہے جو نماز میں وضو کا ہوتا ہے۔ بغیر وضو کے نماز نہیں، اور بغیر توبہ کے اعمال کا اعتبار نہیں۔ وضو طہارت کی علامت ہے اور توبہ نیت کی پاکیزگی کی دلیل ہے۔ پاکیزہ نیت کے بغیر اعمال خواہ کتنے ہی خوش کن کیوں نہ ہوں، صالح نہیں ہوتے۔ نیت کا وضو نہ ہو، تو بظاہر نیک نظر آنے والے کام بھی موجبِ فساد ٹھہرتے ہیں۔ نیت میں رضا و قربِ الٰہی نہ ہو، تو بھاری بھر کم خدمتِ خلق کے منصوبے اکثر اوقات شہرت اور سیاست کے ابواب نکلتے ہیں۔ نیت خالص نہ تو جہاد بھی فساد اور مفاد نکلتا ہے۔ نیت کی پاکیزگی انسان کے عقل و شعور کو مفاد کی آلودگی سے نجات دیتی ہے۔ خالص نیت، اخلاص کی علامت ہے۔ ساری برکتیں اور بڑائیاں اخلاص سے منسوب ہیں۔

راہِ خدا میں توبہ بابِ اوّل ہے۔ یہ وہ باب ہے جس میں سر جھکا کر داخل ہونا ہوتا ہے …… بصورتِ دیگر بنی اسرائیل کی طرح چالیس برس تک صحرائے بے سمت میں گمشدگی لکھ دی جاتی ہے۔ توبہ کرنے والا خالق ہی کے سامنے نہیں، مخلوق کے سامنے بھی عجز و نیاز کا پیکر ہوتا ہے۔اسی لیے ”اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے“۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ محبت اور رحمت عجز کی جانب زیادہ متوجہ ہے۔ اپنی صفت پر متکبر آج تک کسی کا محبوب نہ ہوسکا…… اپنے عمل پر مغرور کبھی توبہ نہ کر سکا!

خدا اور صرف خدا کو ماننے والا توبہ کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا۔ خدا کو کائناتی قوت، قدرت، مصور یا ریاضی دان سمجھنے والا…… نور اور ظلمت، گناہ اور ثواب، قرب اور بْعد کا شعور نہیں رکھتا۔ صرف اور صرف خدا کو ماننے والا اسے اپنی عقل و فہم کے سبب مانتا ہے…… اور وہ خدا ہی کیا ہوا جو سبب کا محتاج ہوا…… وہ خدا کے نہیں، اپنی عقل کے گن گاتا ہے۔ اس کے حمدیہ گیت اس کی فہم و خرد کا بڑا بول ہوتے ہیں۔ خدا کو اس کے پیغمبرؐ کی رسالت اوروساطت سے ماننے والا توبہ کے باب میں ضرور داخل ہوگا۔ توبہ اور وضو کی ضرورت اسے ہوتی جس کے پیشِ نظر کسی مسجد کا محراب و منبر ہو، جسے اپنے محبوب و مقصود کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مطلوب ہو۔ خدا کو محض قدرت اور فطرت تصور کرنے والا عبادت کی ضرورت محسوس نہیں کرے گا…… اس کو کون سا کوئی محبوب ہے جو روٹھا جا رہا ہے، جسے راضی کرنے کیلئے اس نے I am sorry کہنا ہے، جس کی رضاجوئی کیلئے اس نے اپنی جبینِ نیاز کو خم کرنا ہے!! اس کے نزدیک کذب اور صدق محض نظریات ہیں، اور وہ نظریات بھی اس کے اپنے ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ اس کا خدا اس سے کچھ طلب نہیں کرتا…… نہ عمل، نہ رجوع……نہ اطاعت، نہ رکوع!! وہ شخصی خدا کا قائل نہیں ہوتا، اس لئے جواب دہی کا بھی قائل نہ ہو گا…… جزا سزا، حشرنشر، میزان، قیامت، فرشتے اور عذاب و ثواب، اس کے نزدیک علامتیں اور استعارے ہیں، جن کی مدد لے کر پرائے وقتوں میں انبیا نے لوگوں کو قانون اور اخلاقیات کی تعلیم دی…… اس کی دانست میں انبیاء محض مصلحین اور مفکرین ہی تھے۔ اس کے نزدیک انبیا کی ذات اور منصب، مخلوقِ خدا پر خدا کی حجت نہیں ہے!!

توبہ کی ضرورت اور اہمیت اُسے معلوم ہوتی ہے جو خدا کو ایک شخصیت کے روپ میں مخاطب کرتا ہے۔ شخصی خدا تک رسائی انبیاء و رسل کی معرفت ہی ممکن ہے ……ذاتِ باری کے بارے میں وہی بتاتے ہیں کہ اُس کی پسند اور ناپسند کیا ہے، وہ کن کاموں سے خوش ہوتا ہے اور کن کاموں میں اس کی ناراضی کا احتمال ہے۔ توبہ روٹھے کو منانا ہے۔ کبائر سے بچنا تو ظاہر ہے شرطِ اوّل ہے ہی، لیکن صغائر اور لغویات سے اجتناب بھی اس میں شاملِ شرائط ہیں۔ توبہ اور پھر توبہ پر قیام اس کا مسئلہ ہے، جسے اپنی محبوب ذات کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ توبہ پر قیام سے انسان قابلِ توجہ ہو جاتا ہے۔

بھلائی کے کاموں پر استقامت بھلا کام ہے، لیکن منکرات سے منہ موڑنا اس سے بھی بڑا کام ہے۔ جھوٹ کو چھوڑنا سچ بولنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک شخص جو جھوٹ اور سچ دونوں برابر بولتا رہے، اس کی صداقت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ کلمہ طیبہ…… تن من کو پاک کرتا ہے۔ اس کی ابتدا بھی ”لا“ سے ہے۔ نفی اثبات کی دلیل ہوتی ہے۔ ظلمات سے نور کی طرف ہجرت ……ظلم اور ظلمت سے بیزاری کے بغیر ممکن نہیں۔ کبھی بیزاری اور کبھی رغبت…… قابل قبول نہیں۔ نیکی پر استقامت وہ مقام نہیں رکھتی جو برائی سے کراہت میں استقامت کا مقام ہے۔ ظلمت سے بیزاری پر استقامت، نور میں قیام کیلئے بنیادی شرط ہے۔ راہِ صداقت پر پائے استقامت ہی قدم رکھتا ہے۔ صادقین کی معیت، راہِ صداقت پر استقامت والوں کا نصیبہ ہے۔ ”کونو مع الصادقین“ کی طلب میں پائے جانے والوں میں توبہ کی طلب بھی شدید تر پائی جاتی ہے!!

بار بار گناہ اور بار بار توبہ کے متعلق پوچھا گیا تو حضرت واصف علی واصفؒ نے فرمایا کہ اگر بار بار گناہ سے شرمندگی نہیں، تو بار بار توبہ سے کیسی شرمندگی!! حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے منقول ایک قول کا مفہوم ہے کہ توبہ روح کا غسل ہے، جتنی بار بھی ہو بہتر ہے۔ استقامت کو فوق الکرامت کہا گیا ہے لیکن ایسی استقامت جو فخر میں مبتلا کر دے، اس سے بدرجہا بہتر وہ شکستگی ہے جو عاجزی اور انکساری پیدا کرے۔ توبہ کے ٹوٹنے کو اَنا کے ٹوٹنے کے برابر نہیں جاننا چاہیے۔ اپنے عزم کو اَنا نہیں بنانا چاہیے۔ توبہ کا ٹوٹنا اگر اَنا کو بھی ساتھ ہی لے ٹوٹے، تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ اَنا توبہ کے ساتھ بھی قائم رہے۔ انا اپنی لاعلمی میں خود کو عزم کا قائم مقام سمجھ لیتی ہے…… لیکن اَنا اور چیز ہے، عزم اور چیز!! اَنا اور عزم میں وہی فرق ہے جو جسم اور روح میں ہوتا ہے۔ عزم کو سلام ہے…… اَنا کو بھی سلام ہے…… لیکن دُور سے!! عزم کی کمی، ایمان میں کمی کی دلیل نہیں۔ عزم کے بعد توکل کا درجہ ہے…… (جب تم عزم کر لو تو اللہ پر توکل رکھو)۔ توبہ طلب کرنے کے بعد توفیق بھی طلب کرنی چاہیے۔ توفیق شاملِ حال ہو گئی تو توبہ بھی قائم رہے گی…… اور اَنا بھولے سے بھی گھر کی راہ نہیں پائے گی۔ تعوذ، پناہ ہے…… پناہ حاصل ہوگئی تو سر سے ایمان کی چادر نہیں سرک پائے گی۔ اپنی ہمت اور طاقت سے بیزاری کا اظہار اپنے عجز کا اعتراف ہے۔ عجز کا اعتراف کرنے والا اَنا کی وادیِ پُرخار کی طرف نہیں جائے گا!! توبہ، توفیق اور تعوّذ، زادِ راہ ہوں تو انسان بے راہ نہیں ہوتا!!

توبہ شکنی پر دگنی توبہ واجب ہوتی ہے۔ وعدہ خلافی پر تجدید عہد لازم ہوجاتی ہے…… کہ از روئے حدیث ”جسے پاسِ عہد نہیں، اس کا کوئی دین نہیں!” توبہ شکنی کرنے والا آئینے کے رُوبرو نہ ہو سکے گا…… کہ آئینہ سچ اور صرف سچ بولتا ہے!! از روئے حدیث ”مومن مومن کا آئینہ ہے“۔

تبصرے بند ہیں.