بلند ترین قدرتی سٹیدیم

62

ضلع نگر میں پسن کرکٹ سٹیڈیم ہمارا اگلا پڑاؤ تھا۔

مناپن کے اوشو تھنگ ہوٹل کی صبح راکا پوشی کے برف دیدار اور لذت بھرے ناشتے سے ذرا بڑھ کر خوبصورت تھی۔ چیریاں سرخ، سرمئی اور سیاہ رنگ نچھاور کرتی تھیں۔ اسرار احمد صبح خیزی کے عادی تھے اس لیے ہمارے جاگنے سے پہلے دلکش منظر اپنے کیمرے میں محفوظ کر چکے تھے۔ پہاڑی دنیا کے سکوت میں جیپ کے انجن کا شور دراصل طبل جنگ ہوتا ہے، ہماری جیپیں تیار تھیں اور ہم مناپن کی صبح کو آلودہ کر رہے تھے۔

اوشو تھنگ سے نکل کر ہم راکا پوشی سے آنے والے بپھرے ہوئے نالے کے شور میں گم ہو گئے سیاہی میں بدل چکا سلیٹی رنگ پانی بلند و بالا ہوٹل کے پہلو سے اتر کر دریائے ہنزہ کا حصہ بننے جا رہا تھا۔ سحاب اور عون اپنے کرکٹ کے ہتھیار ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ سحاب نے کرکٹ کے نام پر ڈاکٹر عینی ہاشمی کے اصولوں کے جو بخئے ادھیڑے تھے وہ اسرار احمد کی چھتری تلے دب چکے تھے اور اب دنیا کا بلند ترین قدرتی کرکٹ سٹیڈیم ہماری منزل تھا۔

جیپیں مناپن کی گلیوں سے گزر کر پسن کی طرف ہچکولے بھرتی دوڑ رہی تھیں۔ راکا پوشی کا پُرکشش بدن عریاں ہو کر ہمارے سامنے آتا جاتا تھا
مگر ہمارے پیش نگاہ آٹھ ہزار فٹ بلند وہ میدان تھا جسے قدرت نے صرف کرکٹ کے لیے تخلیق کیا تھا۔ گزشتہ برس پی سی بی نے گلگت حکومت سے لیز پر لینا چاہا مگر معاملات طے نہ ہو سکے۔ صوبائی وزیر نے جب پسن سٹیڈیم کا افتتاح کیا تو تین کلو میٹر تک پختہ سٹرک بنائی گئی تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اس میدان کو عالمی میدانوں کے برابر سہولیات دے کر آباد کرنا چاہتا تھا مگر یہاں پر پہلا مقابلہ گلگت کی مقامی ٹیموں کے مابین کرایا گیا۔

ہم  نے جب میدان کو پہلی نظر دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئے۔ راکا پوشی کے گلیشئر میدان کے دہانے تک آتے تھے۔ پانی کا شور شائقین کی فاتح تالیوں جیسا تھا۔ ہم سکتے میں آ گئے کہ میدان کے طرفین میں لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ بالکل یوں تھی جیسے بنائی گئی ہو۔ آخر اب تک یہ میدان ہماری نظروں سے اوجھل کیوں تھا۔ پارکنگ کا انتظام بھی قدرتی تھا۔ پہاڑوں کے درمیان ایک پیالہ وادی اور پھر یہاں حسن فطرت کی موجودگی، بے ساختہ زبان سے نکل رہا تھا ”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے“۔

کنول اور فوزیہ اس قدر حسن فطرت کے سامنے سجدہ ریز تھیں کہ گلیشیئرز تک پہنچ گئیں۔ عون عباس اور سحاب احمد کے حصے میں یہ اعزاز آ گیا کہ دنیا کے بلند ترین میدان میں کرکٹ کھیل لی۔ ہم  نے آیت زہرا اور حجاب زہرا کے ساتھ گراؤنڈ کی بلند پہاڑی دیواروں پر بنے نقوش میں اپنے نام کنندہ کیے۔ راکا پوشی کے سائے میں برف ہوتے ہوئے وجود برف ہونے کو تھے اور ہر سو اپنائیت بکھری پڑی تھی۔

راکا پوشی کے بیس کیمپ تک چلے جانے سے کہیں بہتر یہ لینڈ سکیپ تھی اور یہ مشورہ سید اسرار حسین شاہ کا تھا۔ شاہ جی مستنصر حسین تارڑ کو بھی انہی وادیوں میں لے گئے تھے جس کے نتیجے میں ”راکا پوشی نگر“ جیسا سفر نامہ منظر عام پر آیا تھا۔

ہمارے سامنے وادی راکا پوشی تھی اور سامنے بلند سفید وجود اپنے لازوال گیت گنگناتے تھے۔ قدرتی سٹیڈیم پر اب حکومت اور کرکٹ کے حوالے سے با اثر طاقتوں کی نظر کرم پڑ رہی تھی اور آہستہ آہستہ شائد یہ انسانی ہاتھوں میں آ کر اپنا فطری حسن کھونے والا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ انسان نے ہمیشہ ترقی کے نام پر فطرت کو تباہ کر ڈالا ہے۔ ہم شائد آخری سیاح تھے جو اس سٹیڈیم کو اس کی اصل حالت میں دیکھ رہے تھے۔

شام ہونے سے پہلے راکا پوشی کی برف سرمئی رنگت میں ڈھل کر ندیوں میں پانی پانی ہونے کو تھی جب ہم واپس اوشو تھنگ ہوٹل کے لیے روانہ ہوئے۔ فوزیہ فضا میں خنکی کی وجہ سے جیپ میں بیٹھی تو ہم سب جیپوں کی طرف چلے آئے۔ ہم ہنزہ نہیں جانا چاہتے تھے کیونکہ ہنزہ کمرشل ہو چکا ایک کوٹھا تھا اور نگر محبت میں ڈوبی قدرت کی شاہکار ریاست تھی۔

تبصرے بند ہیں.