6 افراد کا قاتل بچ جائے گا

53

گزشتہ ہفتے لاہور کے علاقے ڈیفنس فیز 7 میں 6 افراد کو ایک کم سن ڈرائیور نے جان بوجھ کر اپنی گاڑی کے ذریعے مار دیا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ملزم افنان جس کی عمر 14سے 15سال بتائی جاتی ہے  نے وائی بلاک ڈیفنس سے گاڑی میں بیٹھی خواتین کا کافی دیر تک پیچھا کیا۔ اس دوران متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور حسنین نے کئی بار گاڑی کی رفتار بھی تیز کی کہ شاید اس طرح افنان ان کا پیچھا کرنا چھوڑ دے تاہم ملزم نے گاڑی کا پیچھا نہیں چھوڑا اور مسلسل خواتین کو ہراساں کرتا رہا۔ وائے بلاک نالے پر متاثرہ گاڑی کے ڈرائیور حسنین نے گاڑی روک کر افنان کو ڈانٹا۔ دوسری گاڑی سے حسنین کے والد نے بھی ملزم افنان کو سمجھایا کہ پیچھا مت کرو لیکن اس دوران ملزم افنان دھمکیاں اور گالیاں دیتا رہا۔ افنان نے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ میں دیکھتا ہوں تم لوگ ڈیفنس میں گاڑی اب کیسے چلاتے ہو۔ اس کے بعد حسنین بہن اور بیوی کو لے کر آگے نکلا تو ملزم  نے دوبارہ پیچھا شروع کر دیا۔ ملزم افنان نے 160 کی سپیڈ سے گاڑی گھما کر خواتین والی گاڑی سے ٹکرا دی۔ ذرائع کے مطابق حادثے کے بعد حسنین کی گاڑی 70 فٹ روڈ سے دور جا گری اور کار سوار تمام افراد جاں بحق ہوگئے، حادثے کے بعد 4 افراد ملزم کو چھڑانے پہنچے لیکن لوگوں کا غصہ دیکھ کر بھاگ گئے۔ اس خوفناک حادثے کے بعد یقیناً نگران وزیر اعلیٰ نے سخت احکامات جاری کیے ہیں، جس کے بعد اوور سپیڈ، کم سن ڈرائیورز اور بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والوں کے خلاف 4 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں، مگر یہ مستقل حل نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت نئی و پرانی موٹرسائیکلوں کی تعداد 7 کروڑ ہو چکی ہے۔ جس میں نہ تو سیفٹی کا چیک اینڈ بیلنس رکھا جاتا ہے اور نہ کسی قسم کا ایمرجنسی سسٹم رکھا جاتا ہے۔ پھر آپ گاڑیوں کے غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز کو دیکھ لیں، نہ اُنہیں اپنی جان کی قیمت عزیز ہوتی ہے اور نہ اگلے کی۔ پھرایک اور المیہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس لائسنس نہیں ہے، تو آپ کی گاڑی کو بند بھی نہیں کیا جائے گا۔ محض 500 سو روپے جرمانہ کر دیا جائے گا۔ یعنی آپ نے محض 500 روپے میں اسے گھر جانے دیا تاکہ وہ راستے میں درجنوں معصوم جانوں کی زندگی سے کھلواڑ کر سکے۔ آپ دور نہیں جائیں محض دبئی کی مثال لے لیں وہاں بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے والے پر باقاعدہ مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ شخص شہر میں ”بم“ لیے پھر رہا تھا۔ آپ موٹروے کی مثال لے لیں، وہاں پر دیکھا یہ گیا ہے کہ صاحب حیثیت لوگ قوانین کی زیادہ دھجیاں اُڑاتے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں علم ہے کہ جرمانے بہت کم ہیں اس لیے اوور سپیڈنگ بھی وہی لوگ کرتے ہیں جن کی گاڑیاں 1600سی سی سے اوپر ہوتی ہیں۔ اُن کے لیے 700 روپے جرمانہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جبکہ اس کے برعکس آپ امریکا کی مثال لے لیں، وہاں ڈرائیونگ میں غفلت، بغیر لائسنس گاڑی چلانا یا شراب پی کر گاڑی چلانے کی سزا اقدام قتل کی سزا کے برابر ہے۔ امریکا میں ہر قسم کی آپ کو چھوٹ مل سکتی ہے مگر نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا ایسا ہی ہے جیسے آپ کو عمر قید کے لیے بھیج دیا جائے۔ اس کے علاوہ وہاں معمولی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھی سیکڑوں ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور بغیر لائسنس کے تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آپ گاڑی چلا سکیں گے! بعض اوقات غلطی پر غلطی کرنیوالے کا لا ئسنس بھی کینسل ہو جاتا ہے تین سال پرانی گاڑیوں کو ہر سال فٹنس ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اگر گاڑی ان کے معیار پر پورا نہیں اترتی تو وہ روڈ پر نہیں آ سکتی۔ ملائیشیا کی مثال لے لیں وہاں صرف وہی شخص ڈرائیونگ کر سکتا ہے جس کے نام پر گاڑی ہو، مگر ہمارے ہاں چار دن ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے والا پانچویں دن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ٹریفک قوانین کا از سر نو جائزہ لیا جائے، گورنمنٹ کی رٹ کو مضبوط کیا جانا چاہیے۔ جرمانے کی سزاؤں کو Revise کیا جانا چاہیے، اب ایک شخص کے پاس 2 کروڑ کی گاڑی ہے اُس کا پانچ، سات سو روپے کا چالان کر دیں گے تو اُسے کیا فرق پڑے گا یا جو شخص موٹروے سے سفر کرتا ہے وہ یقیناً صاحب حیثیت ہو گا، اس کا موٹروے پر اوورسپیڈ پر 700 روپے جرمانہ ہو گا تو اسے کیا فرق پڑے گا یہی جرمانہ اگر پہلی مرتبہ 7000، دوسری مرتبہ 21000 تیسری مرتبہ 60000 اور گاڑی بند ہو گا تو یقیناً وہ نسبتاً احتیاط سے کام لے گا۔ جبکہ دوسری جانب والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اس انداز میں تربیت کریں کہ اُنہیں قانون کا خوف ہو، وہ کبھی والدین کی پوزیشن کا غلط استعمال نہ کریں۔ اُن کی غلط کام کرنے پر کبھی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ اور رہی بات روڈ ایکسیڈنٹس کی تو اس حوالے سے ایک الگ ایسا ادارہ قائم کیا جانا چاہیے جو ہمہ وقت اسی پر کام کرے، اس ادارے میں کسی کا عمل دخل نہ ہو تاکہ اس اہم ترین مسئلے کو سیاست سے ہٹ کر حل کیا جائے۔ ورنہ جیسے چل رہا ہے ویسے ہی سسٹم چلنے دیں کیوں کہ یہ ہماری ”روایات“ ہیں کہ عام لوگوں کو ہلاک کرنے سے کوئی طوفان نہیں اٹھتا۔ کوئی قیامت نہیں آتی۔ کسی قانون کے ماتھے پر شکن نہیں پڑتی۔ کوئی طاقت، از خود نوٹس نہیں لیتی۔ بقول شاعر ”نہ مدعی نہ شہادت ‘حساب پاک ہوا/ یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا“۔ افسوس تو اس امرکا ہے کہ ان حادثات کے بعد نہ تو کوئی ادارہ متحرک ہوتا ہے، نہ کہیں کوئی ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی کہیں چیک اینڈ بیلنس کے نظام میں بہتری لائی جاتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 82 فیصد ٹریفک حادثات موٹر سائیکل سے ہوتے ہیں، یعنی موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکراتی ہے یا کسی اور موٹر سائیکل سے یا پھر سوار خود ہی بے قابو ہو کر کسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے سختی سے قوانین پر عمل درآمد کرائیں گے تو کبھی حادثات نہیں ہوں گے۔ اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے سے پہلے ڈریں گے۔

تبصرے بند ہیں.