غزہ سے ہر روز درجنوں معصوم کلیوں کے جنازے اٹھائے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود شیطان کے پجاریوں کی فرعونیت رکھنے کا نام نہیں لے رہی۔ اہل غزہ پر جاری رقصِ ابلیس کی آڑ میں کھیلے جانے والے شیطانی صہیونی منصوبے کے بہت سے خفیہ پہلوہیں۔ لیکن سردست میرے کالم کا موضوع ایک خفیہ گوشے کو امت مسلمہ کے سامنے رکھنا ہے۔ تاکہ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے درست سمت کا تعین کیا جا سکے۔ جذبات کی رو میں بہنے اور منتشر سوچ کا شکار ہونے سے بچا جا سکے۔کیا کبھی اس پہلو پر سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ آیا نسل پرست یہودی روزانہ کی بنیاد پر درجنوں نہتے و معصوم بچوں کا کیوں وحشیانہ قتل عام کر رہے ہیں؟ حتیٰ کہ معذور، مریض، شیرخوار بچے وادھیڑ عمر مرد وخواتین بھی ان کی فرعونیت و سفاکیت کا نشانہ بن رہے ہیں؟ ایک بات ذہن نشین رہے کہ حماس کی نیت پر شک نہیں کر رہا۔ کیا یہ حیران کن امر نہیں ہے نسل پرست یہودیوں و صلیبیوں کی جنگ تو حماس کے ساتھ ہے، حملہ تو حماس نے کیا تھا۔ لیکن بدترین دشمن نسل کشی تو نہتے مسلمانوں کی کر رہا ہے۔ درحقیقت نسل پرست دشمن اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کی آڑ میں امت مسلمہ پر نفسیاتی دباؤ بڑھا رہا ہے، ان کے اعصاب کو توڑرہا ہے۔ تاکہ اشتعال دلا کر ان کے جذبات کا رخ ایمان سے عاری حکمرانوں کی طرف موڑا جا سکے۔ درحقیقت دجالی شیطانی کھیل کی آڑ میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بغاوت کھڑی کرنا چاہتا ہے، خانہ جنگی کا شکار کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ چالاک و عیار دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ مسلم دنیا کے حکمران، سیاست دان، عسکری و دینی قیادتوں نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان کی خاموشی کی وجہ چاہیے کچھ بھی ہو، ایمان کی کمی، سیاسی و مالی مصلحتیں یا مفادات یا پھر دشمنوں کا خوف، بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔ دراصل دشمن اس کمزوری و خاموشی کو بنیاد بنا کر عوام الناس کے جذبات کو Exploit کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں ذہنی و فکری طور پر انتشار کا شکار کر کے آپس میں گتھم گتھا کرنا چاہتا ہے۔ جیسے نائن الیون و داعش کے فتنوں کے ذریعے کیا گیا۔
لیکن من حیث القوم و امت ہمارا فرض ہے کہ ایک ایسا ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیں، بصیرت افروز طریقوں سے حکمرانوں سمیت عسکری و دینی قیادتوں کو مجبور کریں کہ وہ ایسی پالیسی اپنائیں جس سے بدترین دشمن اور اس کے حواریوں کو منہ کی کھانا پڑے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ حلقے و افراد انفرادی طور پر نسل پرستوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے جہاں ایک جانب اہل غزہ کے غم میں شریک ہوئے تو دوسری جانب نسل پرست دشمن کو بھی احساس دلایاکہ ابھی ہمارے اندر تھوڑی سے حمیت باقی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جتنے بڑے پیمانے پر عالم اسلام کے خلاف دجالی شیطانی سازش رچائی جارہی ہے۔ کیا اس کے مقابلے میں مخلص عناصر کی جانب سے یہ کاوش”بائیکاٹ کی مہم“ کافی ہے؟۔ یقینا نہیں: بلکہ یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ سوشل میڈیا میں بائیکاٹ کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہونے کے بجائے بدقسمتی سے سست روی کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سو میں سے دس فیصد سے بھی کم مسلمانوں نے نسل پرستوں کی مصنوعات کابائیکاٹ کیا ہے۔ جس کا صاف مطلب کہ نوے فیصد مسلم آبادی اب بھی نسل پرستوں کی مصنوعات خرید رہی ہے۔ جس کے منافع سے اہل غزہ پر بارود کی برسات برسائی جارہی ہے، نکبہ ثانی کے لیے ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی دینی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اس حوالے سے ایک مربوط لائحہ عمل مرتب کریں۔ بدترین دشمن اور اس کے حواریوں کی ہر قسم کی مصنوعات بشمول پٹرول پمپوں کے بائیکاٹ کو بیک وقت گلی گلی، محلے محلے، دکان دکان، مسجد مسجد اور مارکیٹوں سے لیکر سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں مہم چلائی جائے۔ جس میں ہر مرد و خواتین، بچے، بوڑھے، مساجد کے اماموں سمیت سکول، کالج و یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات، اساتذہ کرام و دانشور بھرپور عملی شکل میں حصہ لیں۔تاکہ شیطان کے پجاریوں کو ایک ہونے کا دوٹوک پیغام دیا جا سکے کہ ہم اب بھی ایک زندہ امت ہیں۔لیکن بائیکاٹ کی یہ جنگ ہمہ وقت تسلسل کے ساتھ رہنی چاہیے ناکہ جذباتی انداز میں تھوڑے وقت کے لیے۔ کیونکہ یہ شہداء کے ساتھ بھیانک مذاق ہو گا۔
اسی طرح ووٹرز اپنے اپنے حلقوں میں کونسلروں، بلدیاتی نمائندوں، ایم اپی ایز، ایم این ایز اور سینٹروں کے ساتھ تواتر کے ساتھ ملاقاتیں کر کے پرامن طریقوں سے حکومتوں پر دباؤ ڈلوائیں کہ نسل پرست یہودیوں اور اس کے حواریوں کے خلاف کوئی ایکشن لیں۔ کیونکہ یہ غیرتِ ایمانی کا امتحان ہے۔ یہی وقت ہے کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر انہیں تاریخ اسلام کے بدترین دشمنوں ومنافقوں کی سازشوں و منصوبوں سے آگاہی دیں۔ اور جہادی نبی مجاہد اعظم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جہادی اسوۃ حسنہ سے روشناس کرائیں۔ تاکہ آنے والے آخری معرکوں (دین اسلام کا غلبہ) کے حوالے سے نظریاتی و فکری طور پر بھرپور تیاری کی جا سکے۔ خدارا بدترین دشمنوں اور اس کے حواریوں کے خلاف یہ جذبات ماند نہیں پڑنے چاہئیں ورنہ تم سب آخری معرکوں (اسلام کے غلبہ) سے قبل ہی شکست خوردہ بن جاؤ گے۔ جن کی دنیا و آخرت میں کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ چلتے چلتے امت مسلمہ کی عوام الناس کو ایک سچائی سے آگاہ کرتا چلوں کہ بدترین دشمن اپنے حواریوں سمیت آج بھی آپ کی نظریاتی و فکری تیاری وسوچ (قرآن وسنت) سے لرزہ براندام ہے۔ اور یہی دشمن کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔
تبصرے بند ہیں.