پاکستانی نیرو بانسری بجانے میں مصروف ہیں…؟

102

وفادار افراد کی سوچ ہر قسم کے نفع و نقصان سے بالاتر ہوتی ہے جبکہ اپنے مفاد کا راگ الاپ والے ملک اور قوم کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے آج ملک میں کچھ اس طرح ہی کی صورتحال ہے کوئی وفاق پر آئے روز حملہ آور ہے تو کوئی دین کا ٹھیکیدار بن کرشہر اقتدار پر چڑھائی کی دھمکی دے رہا ہے جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا جب ہندوستان نوآبادیاتی تسلط کا شکار ہو رہا تھا تو نیرو کی طرح بہادر شاہ ظفر شعرو سخن کی محفلیں آباد کیے بیٹھاتھا،ایک روایت کے مطابق جب آگ روم کے در و دیوار کو بھسم کر رہی تھی اس وقت نیرو ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا کر اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا جیسے ہمارے سیاستدان آج اقتدار کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، جب روم شعلوں کی لپیٹ میں تھا نیرو روم میں نہیں بلکہ وہاں سے 39 میل دور اینٹیم میں تھا۔ اس نے واپسی پر ذاتی خزانے سے متاثرین کی بحالی کی کارروائیاں شروع کیں اور اپنا محل بے گھر ہونے والوں کے لیے کھول دیا، اس نے روم کو نئے سرے سے بسایا خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرائیں، آگ لگانے کے الزام میں اس نے بے شمار عیسائیوں کو قتل کرا دیا۔ 68ء میں فوج نے بغاوت کر دی تو نیرو ملک سے بھاگ نکلا، اس وقت جب کہ ملک منہدم ہورہا ہے،آج پاکستانی نیرو حکمران اشرافیہ اقتدار کی چھینا جھپٹی میں مصروف ہے پی ٹی آئی نے 10 سال پہلے کی غلطی کا سبق نہیں سیکھا پھر وہی سین دہرایا جانے لگا ہے اسلام آباد میں مبصرین نے پی ٹی آئی کی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ سول نافرمانی تحریک کا آغاز خیبر پختونخوا میں حکومت کی دستبرداری سے کیا جائے کہ جہاں بد امنی ہے لوگ بھوک وافلاس کا شکار ہیں، بانی پی ٹی آئی نے 14 دسمبر سے سول نافرمانی تحریک چلانے کا اعلان کیا توپارٹی بھی حیران رہ گئی جس پر پینترا بدلا گیا ، خان صاحب 2014 میں بھی اس تجربے سے گزر چکے ہیں، 2014 کے دھرنے میں انہوں نے اپنا یہی آخری کارڈ کھیلا تھا لیکن تب کے اور آج کے حالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے، گمراہ کن اور کم نظر ترجیحات نے ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے کہ ملک پیچھے کی طرف جاتا جا رہا ہے اور یہ عالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی کا سبب بن رہا ہے، یہاں تک کہ ہم ہمارے بہترین غیرملکی دوست کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں،ہمارا حال تو یہ ہے کہ 1971ء میں پاکستان دولخت ہوا لیکن آج تک ہم اس بات کا اندازہ ہی نہیں لگا سکے کہ اس المیے میں کتنی جانوں کا نقصان ہوا اور ہم نے اس سے کچھ سیکھا؟ جو بھی آیا اس نے قوم کو اپاہج بنا دیا ہے جو بھی آیا اس نے پاکستان کے عوام کو اس کے پانچ مرلہ مکان سے بھی محروم کردیا ہے قومی سوچ تو دور کی بات یہاں پر جو بھی آیا اس نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا حالیہ دور میں بھی جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ان حالات میں عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں پاکستان پر برسر اقتدار آنیوالے تمام لوگوں نے سو میں سے دس فیصد بھی عوام کیلئے سوچا ہوتا تو آج اربوں روپے ڈالر کی مقروض قوم وجود میں نہ آتی 76 سال میں اس قوم کیساتھ کھلواڑ ہورہا ہے سائیکلوں پر اسمبلی پہنچنے والے ارب پتی بن گئے ووٹ دینے والے جو ارب پتی تھے وہ ککھ پتی بن گئے اب حالات بالکل مختلف ہوتے جارہے ہیں اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کے دروازے پر خوفناک انقلاب دستک دے رہا ہے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ قانون میں ترمیم کرکے ایسا قانون سامنے لائے جس میں تمام لوگوں کیلئے مسائل یکساں ہوں، سول نافرمانی ملک سے غداری ہے ا س قسم کی کوئی تحریک ملک کے حق میں نہیں، ملک بہتری کی جانب گامزن ہے مہم کے اعلان نے انارکی جیسا ماحول پیدا کر دیا، ترسیلات زر کم ہوں گی تو زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ پڑے گا،مفادات کی سیاست نے ملک و قوم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک و قوم کو انتشار اورانارکی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔
معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے سول نافرمانی اور وفاق پر حملہ سے نقصان ہوگا دھرنے کی سیاست غلط ہو گی، قوم اکھٹے ہو کر مذموم ایجنڈے کا بائیکاٹ کرے تمام سٹیک ہولڈر ز کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ کوئی بھی چیز ، افراد یا سیاسی جماعت پاکستان کی سلامتی سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی، ملک مسلسل دہشت گردوں کے نشانہ پر ہے ، ان کے خلاف اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے مگر بد قسمتی سے کسی کو کوئی فکر نہیں۔

تبصرے بند ہیں.