زندگی نعمتوں سے بھرپور اور زبان پر شکووں کی بھرمار ہو تو یہ مقام، مقامِ حیرت نہیں، عبرت ہے۔ عبرت کا زمانہ حال بہت تابناک ہوتا ہے …… صرف مستقبل کربناک ہوتا ہے۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ایک ارشادِ گرامی کا مفہوم اس طرح ہے کہ اگر گناہ بھی جاری ہیں اور رب کی نعمتوں کا تسلسل بھی بدستور قائم ہے تو ڈرنا چاہیے، یہ کہیں عبرت کا سامان اکٹھا ہو رہا ہے۔
لوگوں نے شکوہ و شکایت کو ایک طرزِ زندگی کی طرح اپنا لیا ہے۔ سب کچھ کھا پی کر، یہاں تک کہ دوسروں کا حصہ بھی ڈکار لینے کے بعد، ہم بدہضمی کی شکایت کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ہم پہلے ہی اپنے استحقاق سے کہیں زیادہ حاصل کر چکے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ زندگی نے ہمیں کیا دیا ہے؟ زندگی دینے والا پوچھتا ہے کہ آخر تمہارا کیا استحقاق تھا کہ تمہیں پیدا ہی کیا جاتا۔ زندگی میں، عالمِ شہود کی روشنی میں، چند روز کے لیے جگہ پا لینا ہی ایک ایسی نعمت ہے جس پر ہمارا کوئی استحقاق نہیں۔ زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے ہی ہم اپنی استعداد اور اپنے استحقاق سے بڑھ کر لے چکے ہیں۔ اب اس کے بعد سارے مقامات توبہ کے ہیں یا پھر شکر کے۔ اگر ہم نعمتوں کا شکر اَدا نہیں کر سکے تو یہ توبہ کا مقام ہے۔ اگر نعمتوں کے عین درمیان میں ہمارے ہاں اطاعت کے بجائے معصیت جگہ پا رہی ہے تو بالیقین یہ توبہ کا مقام ہے۔
سجدہ شکر دراصل معرفت کا درجہ ہے۔ نعمتوں کی پہچان اس وقت نہیں ہو سکتی، جب تک منعم کی پہچان کا کوئی درجہ حاصل نہ ہو جائے۔ نعمت عطا کرنے والی ذات پیشِ نظر نہ ہو تو ہر نعمت محل ِ نظر ہے۔ ہم اپنی حاصل شدہ نعمتوں کو بلاشرکتِ غیرے اپنے لیے وقف سمجھتے ہیں۔ ہم ہر نعمت کو اپنے زورِ بازو کا کرشمہ جانتے ہیں اور محرومِ نعمت کو اس کی کم ہمتی پر محمول سمجھتے ہیں۔
سبب اور نتیجے کی دنیا میں حاصل ہونے والے نتائج حتمی نہیں ہوتے۔ اس دنیا میں کون محروم رہا اور کون مخدوم، اس کا تعین دولت اور وسائل کی فراوانی دیکھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ دنیا جائے جزا و سزا نہیں، بلکہ جائے عمل ہے۔ روزِ جزا کا ایک دن معین ہے۔ یہاں انصاف کی تمنا تو کی جا سکتی ہے، انصاف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انسانوں کی دنیا میں حقیقی عدل شاید ممکن ہی نہیں، کیونکہ کسی منصف کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ فریقین کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا کماحقہ جائزہ لے سکے۔ ایک جگہ کا انصاف کسی اور جگہ ظلم سے تعبیر ہو سکتا ہے۔ لادینی معاشروں میں کسی دینی معاشرے میں قائم تعزیرات ظالمانہ قرار دی جاتی ہیں، جب کہ دینی معاشروں میں کسی لا دینی معاشرے میں مروج آزاد روی کو فتنہ و فساد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بہرطور ہمیں یہاں کسی ایک طرف ہو کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ مسندِ اقتدار پر قابض حکمران کے لیے آزادی مانگنے والے باغی کہلاتے ہیں، جب کہ حریت پسندوں کی نگاہوں میں وہ مجاہدین قرار پاتے ہیں۔ بس جیسی نگاہ ہے، ویسا منظر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی فیصلہ لینے اور کرنے سے پہلے زاویہ نگاہ درست کرنا عین عدل ہے۔ عمل کی دنیا میں عدل قائم کرنے سے پہلے فکر کی دنیا میں عدل پر ہونا لازم ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے: اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے۔ مذکورہ آیت میں ”نعمت“ واحد صیغہ میں استعمال ہوا ہے، ترجمے میں جمع کا صیغہ ہے۔ اہلِ لغت بتاتے ہیں کہ یہاں ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر ایک بھی نعمت شمار کر نا چاہو تو شمار نہ کر سکو گے۔ اہلِ لغت کی یہ واحد بات ہے جو دل کو لگتی ہے، کیونکہ اللہ کی ہر نعمت درحقیقت نعمت در نعمت ہے۔ اگر درخت کو ایک نعمت تصور کیا جائے تو درختوں کی تعداد، اقسام و انواع اور ان سے حاصل ہونے والے نوع بنوع فوائد شمار سے باہر ہیں۔ اہلِ دل کہتے ہیں کہ انسان بھی اللہ کی ایک نعمت ہے…… انسان اِس شجرِ کائنات کا ثمر ہے۔ اسے حاصلِ کائنات بھی کہا جا سکتا ہے۔ کائناتی قوتوں نے صرف اس کا جسم پیدا کیا ہے، یہ خود کہیں اور سے آن وارد ہوا ہے۔ جہاں سے آیا ہے، وہی اسے لوٹ کر جانا ہے۔ یہ جہاں سے آیا ہے، وہیں سے اسے پیغامات وصول ہوتے ہیں، پیغام ہدایت و رافت و رحمت!! …… اس لیے حضرت ِ انسان کی حتی المقدور قدر کرنا چاہیے۔ ہر انسان اپنے اندر پوری انسانیت کو سموئے ہوئے ہے۔ قتلِ ناحق کی سزا اسی لیے ناقابلِ معافی ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کی زندگی بچائی، اس نے گویا پوری بنی نوعِ انسانی کو بچا لیا اور جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔
ہدایت بھی ایک نعمت ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ پیغامِ ہدایت کی قدر کرے۔ ہدایت کی قدر کرنے کا طریق یہ ہے کہ وہ پیغامِ ہدایت پر حتی الوسع عمل کرنے کی کوشش کرے۔ انسان بنانے والے کے دل میں انسان کی بڑی قدر ہے، اسی لیے اس نے اس کی ہدایت کے لیے انبیاء مبعوث کیے۔ کوئی قوم ایسی نہیں، جس میں اُس نے ہادی نہ بھیجا ہو۔ اس نے انسان کو، انفرادی اور اجتماعی، ہر طرح کی ہدایت ارسال کی…… اُس نے اِس کی طرف رسالات بھیجیں …… تاکہ یہ اپنے اختیار کے ہتھیار سے کہیں خود کشی نہ کر لے…… یہ خود کو کوئی انہونا نقصان نہ پہنچا لے۔ انسان جب انفرادی طور پر خود کو نقصان پہنچاتا تو اپنے اردگرد بھی بہت سے انسانوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر میں اپنی صحت برباد کرتا ہوں تو اپنے سے منسلک بہت سے انسانوں کے لیے بھی مصیبت کا باعث بن سکتا ہوں۔ سگریٹ پینے والا شخص صرف خود کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں کو بھی ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ خدانخواستہ اسے دل کی تکلیف ہوتی ہے، یا پھر پھیپھڑوں کا کوئی موذی مرض لاحق ہو جاتا ہے، تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے خاندان اور دیگر اہل و عیال کس معاشی و معاشرتی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ جس طرح خود کو کسی جسمانی عارضے میں مبتلا کر لینا ماحول کو بیمار کر دیتا ہے، اسی طرح کسی روحانی مرض میں مبتلا ہو جانا بھی ہمارے آس پاس کی دنیا کو بیمار کر دیتا ہے۔ ایک غصیلہ شخص اپنے اردگرد نفرت کی پچکاریاں مارتا ہے اور ماحول کر پراگندہ کر دیتا ہے۔ لالچ، حسد اور بغض بھی ایک چھوت کی بیماری کی طرح ایک سے دوسرے کو لگ جاتے ہیں۔ ایک انسان کی اصلاح پوری انسانیت کی فلاح ہے …… تو پھر کیوں نہ اپنے گھر سے اصلاح کا کام شروع کیا جائے۔ میرا گھر، میرا وجود، میرا دل، میرے حواس خمسہ …… مجھے ان پر فوکس کرنا چاہیے۔ کسی طرح یہ مملکتِ وجود ہلاکت سے بچ جائے…… تا کہ پوری انسانیت بچ جائے!!
ہدایت ایسی نعمت کی قدر اس طرح ممکن ہے کہ ہم اپنے ہادیؐ کی قدر کریں۔ ہم پیغامِ ہدایت لانے والی ہستیؐ سے قلبی تعلق پیدا کریں تو پیغام ہمارے دل میں گھر جائے۔ دل اگر نُورِ ہدایت میں گھِر گیا تو دنیا کی ظلمتِ اسے گھیر نہیں سکے گی۔ دل کی تطہیر کے لیے کسی مطہر ہستی سے لگاؤ سے بہتر کوئی اکسیر نہیں۔ نفس کی اصلاح کوئی ذی نفس ہی کرتا ہے۔
پیغمبرِ اعظم و اکرمؐ ایک عظیم اور لافانی ہدایت کے پیغام بر ہیں۔ آپؐ رحمت للعالمین ہیں …… سب جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ جو کوئی جس بھی جہان میں ہے، آپؐ کو سب کی ہدایت مطلوب اور عزیز ہے۔ آپؐ کی شان میں یہ فرمایا گیا ہے: ”بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسولؐ تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مومنوں پر بہت مہربان اور رحمت فرمانے والے ہیں“۔
اس پیغامِ ہدایت کی اطاعت میں راحت ہے، اس سے انحراف میں مشقت ہے۔
تبصرے بند ہیں.