دیر آید درست آید……!

98

اگلے دن چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صدارت میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے انعقاد اور اِس کی کاروائی اور اِس میں کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں جو تفصیل میڈیا میں آئی ہے اُس کو سامنے رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ خیر دیر آید درست آید، معاملات آگے بڑھے تو ہیں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ مزید ٹھوس فیصلے اور فیصلہ کُن اقدامات بھی سامنے آئیں گے۔ فی الحال سپریم جوڈیشل کونسل نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو شو کاز نوٹس جاری کر کے چودہ روز کے اندر جواب طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف پاکستان بار کونسل اور پاکستان مسلم لیگ (ن) (وکلاء وِنگ) سمیت دس شکایت گزاروں نے آڈیولیکس اور مالیاتی بے ضابطگیوں کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل میں اِس سال مارچ، اپریل میں شکایت درج کروائی تھیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر اِن شکایات پر فوری اور ضروری کاروائی کرنے سے گریز کیا جاتا رہا تاہم انہوں نے بعد میں اِن شکایات پر ضروری قانونی کاروائی کے حصول کے لیے معاملہ سپریم کورٹ کے سینئر جج اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رُکن جسٹس سرادار طارق مسعود کو بھجوا دیا جنہوں نے شکایات کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی قانونی رائے ارسال کی۔ اس رائے کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کونسل کا حالیہ اجلاس بلایا گیا ہے اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے بارے میں شکایات کا جائزہ لے کر انہیں ۱۰ نومبر تک جواب دینے کے لیے شو کاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے اجلاس میں دیگر جن معاملات اور شکایات کا جائزہ لیاہے اُن میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز سردار طارق مسعود خان اور جسٹس اعجاز الاحسن کے بارے میں شکایات بھی شامل ہیں۔ ان شکایات کے حوالے سے یہ پہلو خوش آئند ہے کہ یہ شکایات جب زیرِ بحث آئیں تو جسٹس سردار طارق مسعود خان اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے خلاف شکایات سننے سے معذرت کر لی اور ان کی جگہ پر سپریم کورٹ کے اگلے سینئرترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ جسٹس اعجاز الااحسن کے بارے میں شکایت کا جائزہ لے کر اسے مسترد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو جسٹس سردار طارق مسعود خان کے بارے میں شکایت کنندہ آمنہ ملک کو آئندہ اجلاس میں بلانے اور اُن سے اپنی شکایت کے حق میں ضروری مواد مہیا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں مجموعی طور پر ۲۹ شکایات کا جائزہ لیا گیا جن میں سے جہاں ۱۹ شکایات مسترد کر دی گئیں وہاں غلط شکایات جمع کرانے والے وکلاء کو سختی سے تنبیہ کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے بارے میں میڈیا میں آنے والی یہ تفصیلات اپنے جگہ یقینا خوش آئند اور حوصلہ افزا ہیں کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے اس اجلاس سے اعلیٰ عدلیہ کے عزت مآب ججز کے بارے میں پائے جانے والے کئی طرح کے شکوک و شبہات، مالی بد عنوانیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے اور دیگر
خدشات کو رفع کرنے میں یقینا مدد ملے گی۔ عدالتیں اور عزت مآب ججز عدل و انصاف اور آئین و قانون کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہیں۔ اُن کے فیصلوں سے بلا استثنیٰ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ یہ فیصلے کچھ کے حق میں ہوتے ہیں تو کچھ کے خلاف جاتے ہیں لیکن اِن کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہ سکتاکہ اس کے ساتھ زیادتی یا نا انصافی ہوئی ہے، اس لیے کہ جیسے کہا گیا ہے کہ ان فیصلوں کی بنیاد عدل و انصاف اور ان کے ماخذ آئین اور قانون ہوتے ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ عام شہریوں کے خلاف مقدمات اور شکایات تو عدالتوں میں زیرِ سماعت آئیں اور ان کے بارے میں فیصلے بھی جاری ہوں لیکن جب اعلیٰ عدلیہ کے عزت مآب ججز کے بارے میں کسی طرح کی شکایات یا ان کے اندازِ فکر و عمل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار سامنے آئے تو چپ سادھ لی جائے۔ اچھا ہوا کہ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلا کر اس میں اعلیٰ عدلیہ کے بعض عزت مآب ججز کے حوالے سے کب سے زیرِ التوا پڑی درخواستوں اور شکایات پر ضروری کاروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس کے لیے بلا شبہ وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا کچھ ایسا بے جا نہیں ہو گا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا آخری اجلاس کوئی ڈیڑھ دو سال قبل سابق چیف جسٹس گلزار احمد کے دور میں منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کے تقریباً ڈیڑھ سالہ دور میں سپریم جوڈیشل کونسل کا کوئی اجلاس منعقد نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اس کی ایک اہم وجہ سپریم کورٹ کے ججز میں پائی جانے والی تفریق اور تقسیم ہو سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال فروری ۲۰۲۲ میں چیف جسٹس بنے تو سپریم کورٹ کے عزت مآب ججز کے مابین اختلافات اور ایک دوسرے سے بات چیت نہ کرنے کی خبریں بھی سامنے آنے لگیں۔ اس کے پس منظر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف عمران خان کے دور میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کیا جانے والا ریفرنس بھی ہو سکتا ہے جو ستمبر ۲۰۱۹ میں دائر کیا گیا۔ یہ ریفرنس بعد میں مزید کاروائی کے لیے سپریم کورٹ میں بھجوا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے اُس وقت کے سینئر ترین جج جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے تقریباً ایک سال تک اس ریفرنس کے حوالے سے معاملات کی سماعت کی اور انجام کار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں اپنے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سماعت کے دوران بلا شبہ موجودہ چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کو انتہائی نا پسندیدہ، نا خوشگوار اور کسی حد تک ہتک آمیز صوتحال کا بھی سا منا رہا۔اس صورتِ حال نے سپریم کورٹ کے عزت مآب ججز کے ما بین اختلافات اور تفریق کو ہوا دینے میں یقینا کردار ہی ادا نہیں کیا بلکہ بعد میں چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کے بعض فیصلوں اور سپریم کورٹ میں کئے جانے والے اقدامات سے بھی اس کو مزید تقویت ملی۔ شاید اس کی بنا پر ہی چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کو جناب جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود جیسے اپنے سینئر ترین ساتھیوں کا وہ اعتماد اور تعاون حاصل نہ ہو سکا جس کی اشد ضروت تھی۔ اس کا نتیجہ لا محالہ یہ سامنے آنا تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال چیف جسٹس کے اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں جہاں سپریم کورٹ کے ججز کا فُل کورٹ اجلاس بلانے سے گریزاں رہے وہاں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلانے سے بھی انہوں نے احتراز کیا۔ اب چیف جسٹس جناب قاضی فائز عسیٰ کے دور میں اس صوتحال میں تبدیلی آئی ہے تو اِسے خوش آئند ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.