مقامی، قومی اور انٹرنیشنل مسائل کا حل!

85

 

زیادہ پرانی بات نہیں جب لاہور شہر کا ایک بڑا مسئلہ ٹریفک جام تھا۔شہریوں کا گھنٹوں سڑکوں پر خوار ہونا ایک معمول کی بات تھی جس کی وجہ سے وقت اور ایندھن کا بے پناہ ضیاع بھی ہو رہا تھا۔ بھلا ہو اس وقت کے وزرا اعلیٰ میاں شہباز شریف اور چوہدری پرویز الٰہی کا جنہوں نے اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دی۔ شہر میں کچھ نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں، متعدد انڈر پاس اور فلائی اوور تعمیر کیے گئے اور کئی سڑکوں کو سگنل فری کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں لاہور شہر کے باسی جنہوں نے پرانے سسٹم کو بھگتا ہوا ہے آج سڑکوں پر روانی سے سفر کرتے ہیں اور سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر اس قسم کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو دعائیں دیتے ہیں۔
لاہور شہر کی ٹریفک کو رواں رکھنے کے لیے ایک اچھا سسٹم تو بنا دیا گیااور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید بہتری بھی آتی جا رہی ہے لیکن افسوس اس سسٹم کی منٹیننس کے ذمہ دار افسران اور اہلکاروں کی کارکردگی میں کافی جھول ہے۔ سکول کالج اور دفتری اوقات میں چوکوں چوراہوں پر معمور اہلکار اکثر ڈیوٹی سے غائب نظر آتے ہیں جس کے نتیجہ میں عوام کو خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا مجھے گزشتہ روز کرنا پڑا جب میرے گھر میں جاری کچھ کام کے ذمہ دار ٹھیکیدار مسٹر بوٹا نے مجھے کچھ سامان لانے کے لیے کہہ دیا۔ میں گاڑی لے کر ملتان روڈ پر چلا گیا لیکن کھاڑک چوک میں ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔ میرا خیال تھا کہ روٹین کا ٹریفک جام ہے ابھی کچھ دیر میں کھل جائے گا، لہٰذا میں نے گاڑی کا ریڈیو آن کر کے کرکٹ میچ کی کمنٹری سننا شروع کر دی۔ وقت گزرتا گیا لیکن ٹریفک ٹس سے مس نہ ہوئی۔ تنگ آ کر 15 ایمرجنسی ہیلپ لائین پر فون کیا لیکن بے سود۔
بلا مبالغہ تقریباًایک گھنٹہ اسی طرح کھجل خوار
ہونے کے بعد کچھ شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک کو رواں کرنے کی کوشش کی تو حالات کے بہتر ہونے کی کچھ امید ہوئی۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے شہریوں کی آپس میں لڑائی شروع ہو گئی جو کافی حد تک بڑھ بھی گئی اس طرح جو امید بندھی تھی وہ بھی دم توڑنے لگی اورمعاملہ مزید تاخیر کا شکار ہو گیا۔
ٹریفک جام سے تو خیر کسی طرح خلاصی ہوئی لیکن گھر واپس پہنچ کر بھی اس صورتحال کا دماغ پر کافی اثر رہا۔ سوچتا رہا کہ ہمارا سیاسی نظام اور ہمارے سیاسی راہنما بھی اسی ٹریفک جام والی صورتحال کے کرداروں کی طرح ہی ہیں۔ بے صبری اور بے چینی سے صورتحال میں بگاڑ پیدا کر لیتے ہیں اور بدترین صورتحال بن جانے کے بعد اگر کوئی عقل کی بات کرے یا انہیں سمجھانے کی کوشش کرے تو اس کے ساتھ جھگڑے اور ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اس سیاسی عدم برداشت کا نقصان صرف اور صرف عوام کو برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے سیاستدان تو اپوزیشن میں بھی تو بھی حکومت کے مزے لے رہے ہوتے ہیں اور اگر محسوس کریں کہ ہوا مکمل طور پر ان کے مخالف چل پڑی ہے تو یہ لوٹا بن کر پارٹی بدلنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگاتے۔
محترم ڈاکٹر صداقت علی کی باتوں کو اگر غور سے سنا جائے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے تو یقینا بہت سے مسائل سے بچا بھی جا سکتا ہے۔ وہ چاہے ٹریفک میں پھنسنے کا مسلہ ہو یا مخالف سیاسی پارٹی سے ڈیلنگ کرنے کا، ایک دوسرے کو براشت کرنے کا ہو اور یا پھر دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ دکھانے کا ان سب معاملات سے نمٹنے کا ایک ہی کامیاب حل ہے کہ ہم دوسروں کو تھوڑی بہت گنجائش دیں اور مخالف فریق کی حقیقت کو تسلیم کریں۔
سنی سنائی بات نہیں میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اتنی معمولی سی بات پر عمل کر کے ہم نا صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی بہت سی آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اگرچہ آج سیاسی عدم استحکام کے لیے عمران خان کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کل اسی قسم کی ذمہ داری پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ پر عائد کی جاتی تھی۔
یہ عدم برداشت، ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم نہ کرنا اور دھونس دھاندلی کی بنیادپر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقومی طور پر لوگوں کو اس قسم کی صورتحال سے مسائل کا سامنا ہے۔
بلا شبہ ہم عالمی سطح پر طویل اور پیچیدہ تنازعات میں نمایاں اضافہ دیکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے بڑے اور گہرے انسانی بحران، طویل انسانی مصائب، سیاسی بحران، بھاری اقتصادی اور مالی اخراجات اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور پناہ گزینوں کے بہاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بلا شبہ جب تک سیاسی رہنما بحرانوں کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے عزم ظاہر نہیں کرتے، ان لاکھوں بچوں، عورتوں اور مردوں کے لیے بہت کم تبدیلی آئے گی جو ان بحرانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اگر آج بھی ہم کشمیر اور فلسطین سمیت تمام بین ا لاقوامی مسائل کا جامع اور پرامن حل چاہتے ہیں تو ہم سب کو مل کر کوششیں کرنا ہوں گی کہ اقوام عالم کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بگڑتے ہوئے حالات کی ابتدائی علامات کی نشاندہی کرنے میں زیادہ ماہر ہوں اور حالات کے مزید بگڑنے سے پہلے کارروائی کریں۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سمیت عالمی برادری کو کشیدگی سے نمٹنے اور تشدد کو کم کرنے کے لیے سیاسی یکجہتی کی جانب تیزی سے کام کرنے کے لیے زیادہ عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ مسلہ ٹریفک بلاک ہونے کا ہو، قومی سطح پے سیاسی بحران ہوں یا پھر بین الاقومی تنازعات اور کشیدگیاں ہوں ان کا حل صرف ایک ہی ہے اور جتنی جلدی ہم اس حل کی طرف جائیں گے اتنی ہی جلدی ہم اپنے مسائل کا حل پا لیں گے۔

تبصرے بند ہیں.