تعلیم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا

68

 

پاکستان، جہاں مہنگائی کے بعد بچوں کی پڑھائی ہر دوسرے شخص کا مسئلہ ہے، میں بچے کی ولادت کے بعد سے ہی اسکے سکول کا تعین شروع ہو جاتا ہے۔ قطع نظر اس بات سے، کہ بچہ ابھی اس مرحلے کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں، والدین کی اولین کاوش ننھی جان کو تیسرے برس ہی سکول کے سپرد کرنا ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ ”جتنا جلدی سکول جائے گا، اتنا جلدی پڑھ کر آگے کچھ کمائے گا“، حالانکہ یہ سوچ سراسر غلط ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ناروے اور فن لینڈ جیسے ممالک اتنے ترقی یافتہ نہ ہوتے جہاں بچوں کو 6 سے 7 برس کی عمر سے قبل سکول بھیجنا ممنوع ہے۔ اور پھر وہ دن آتا ہے جب کتابوں کے بوجھ سے جھکی پشت لیے ایک طالب علم ایسے سفر کا آغاز کرتا ہے جس کی حقیقی منزل کا اسے معلوم ہوتاہے نہ اس کے والدین اور اساتذہ کو۔
اول تو ہمارے سکولوں میں اخلاقی تربیت کا فقدان ہے،نہ اساتذہ اور نہ ہی سکول اس کا کوئی انتظام کرتے ہیں،حالانکہ یہ کسی بھی معاشرے کی اچھی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ اس کی سب سے اہم مثال ٹوکیو شہر ہے جسے دنیا کا محفوظ ترین شہر قرار دیا گیا،یہاں ایک چھے سال کا بچہ بھی صحیح سلامت پورے شہر میں سفر کر سکتاہے۔اس کے پیچھے کی بنیاد جاپان کے سکولوں کا نصاب ہے جہاں تیسری جماعت تک اخلاقیات اور مذہبی تعلیم بطور لازمی مضمون پڑھائے جاتے ہیں۔اور اگر بات کریں تعلیم کی، تو ہمارے ہاں زیادہ سیزیادہ کتابیں بچوں پر بوجھ بنا کر ڈالنے کے ساتھ ساتھ سکولوں کا سب سے بڑا مسئلہ ”رٹے بازی“ ہے کہ بغیر سمجھے اور سیکھے، جسے کنسیپٹ کلیئر کرنا کہتے ہیں، کتابوں کے الفاظ طوطوں کی طرح یاد کرائے جائیں قطع نظر اس چیز کے کہ اس سے طلبہ کچھ نیا کر پائیں گے یا نہیں۔ جبکہ یورپ کے کئی ممالک جونظام ہائے تعلیم کی فہرست میں اول نظر آتے ہیں وہ آہستہ آہستہ کتب کو اپنے نصاب سے ختم کر کے غیر نصابی سر گرمیوں اور طلبہ کے ذاتی مشاہدے سے تعلیم کو فروغ دے رہے جو سیلف لرننگ کہلاتی ہے، تاکہ طلبہ اپنی ذہنی صلاحیت اور رجحان کے مطابق بہتر سے بہترین سیکھیں اور زبردستی کی مسلط کردہ پڑھائی سے اپنا مستقبل نہ برباد کریں۔
پاکستانی سکولوں کی مڈل تک کی تعلیم جیسے تیسے مکمل ہو، اس کے بعد میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے مراحل شروع ہوتے ہیں جو کسی بھی طالب علم کی زندگی کے سب سے زیادہ مشقت والے سال ہوتے ہیں اور اسی عرصے پر طلبہ کی اگلی تعلیمی زندگی منحصر ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو نہم جماعت کے پہلے دن سے والدین بچوں پر زیادہ سے زیادہ نمبر لینے کا دباؤ ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔اور پھر ہو بہو دہم،گیارہوں اور بارہویں جماعت میں بھی۔ اور طلبہ پہلے سکول/کالج پھر اکیڈمی کے درمیان پس کر رہ جاتے ہیں۔ صبح سے لے دوپہر تک سکول/کالج پھر سہ پہر سے لے کر شام تک اکیڈمی اکثر طلبہ کا معمول بن جاتا ہے اور اس دوران جو وقت بچتا ہے وہ ہوم ورک اور ”اکیڈمی کا کام یاد کرنے“ کی نذر ہو جاتا ہے۔اب فکر انگیز بات یہ ہے کہ اس سب میں ایک طالب علم کو کھیل،غیر نصابی سرگرمیوں اور غیر نصابی مطالعے وغیرہ کا وقت کب ملے؟ اور اسی کے ساتھ سال کے اختتام پر ٹیسٹ سیشن نامی 4 ماہ کا دورانیہ جس میں طلبہ کے دن اور راتیں ایک ہی موادبار بار گھما کر اپنے ذہنوں میں بھرنے میں لگ جاتی ہیں جس کوامتحان میں اگل کر نمبر تو آجاتے ہیں پر ذہن وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال یہ کہ جب حکومت نے کچھ عرصہ پہلے بورڈ میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو پرکھنے کے لئے او/اے لیولز کی طرز پر ایک خصوصی امتحان منعقد کرایا، جہاں تمام سوالات کنسیپچوئل تھے، تو اس امتحان کو ایک بھی طالب علم پاس نہ کر پایا۔ 1090 اور زائد نمبر لینے والے طلبہ بھی 30 فیصد سے اوپر نہ جا سکے۔ اس ناکامی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس امتحان میں وہی ”کتاب والے سوالات“ نہیں تھے کہ جن کے جوابات مخصوص صفحات کے مخصوص پیراگراف یاد کر کے دیے جا سکیں۔
اس کرب سے گزرتے گزرتے جہاں 4 سال مکمل ہوتے ہیں، وہاں ایک نیا تماشا انٹری ٹیسٹ اور یونیورسٹی کے داخلوں کے نام پر لگتا ہے۔ پہلے تو طلبہ کی کثیر تعداد کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انکا رجحان کیا ہے اور انہیں کرنا کیا چاہیے، اور نہ ہی والدین کو، سکول اور کالج بھی اس سلسلے میں کیرئیر کاؤنسلنگ نہیں کرتے۔ اب ہمارے ہاں میڈیکل اور انجینئرنگ بڑے اعلیٰ شعبے مانے جاتے ہیں، اور گزشتہ کچھ سال سے آئی ٹی کا شعبہ بھی اس فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ حالانکہ اب دنیا ان چیزوں سے آگے بڑھ چکی ہے مگر پاکستان اب بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے، درج بالا تین شعبہ جات کے علاوہ بھی ایسے بہت سے شعبے ہیں جہاں طلبہ اپنا مقام پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن طلبہ کو اس کا علم نہیں ہوتا اور وہ بس ایک ہی جگہ پھنس جاتے ہیں اور پھر ناکامی اور مایوسی ہی ان کا مقدر بنتی ہے۔ مثال کے طور پر 2022 میں 204,253 طلبہ نے ایم ڈی کیٹ دیا تھا مگر ایم بی بی ایس کی کل نشستیں 16265 ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا باقی لاکھوں طلبہ جن کا داخلہ نہیں ہوا وہ کیا کریں گے؟کیا وہ ناکام ہیں؟ اور کیا انکی اتنے سال کی محنت ایک پرچے نے ضائع کر دی؟ اور اس تمام عرصے میں دوسروں کے بچوں سے موازنہ بھی طلبہ کے ذہنوں پر پہاڑ بن کر ٹوٹتا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ پاکستان میں اب طلبہ پڑھائی سے باغی ہوتے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ کچھ سال سے امتحانات میں نقل اور ناکامی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سال لاہور میں نہم جماعت کے محض 49.60 فیصد طلبہ ہی پاس ہوئے باقی سارے فیل۔ پاکستانی بچے جو اب نفسیاتی مریض اور تعلیم ایک تماشا بنتی جا رہی ہے۔ اتنے سال کی لگاتار محنت اور والدین کے اخراجات کے بعد دنیا کے مقابلے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیوں طلبہ علم کی طلب سے دور بھاگتے جا رہے ہیں؟ امتحانات میں نقل دن بہ دن کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ آخر اسکا ذمہ دار کون ہے؟ ہمارا نظام تعلیم آج بھی اسکے لیے جوابدہ ہے۔

تبصرے بند ہیں.