ادب کا نوبل پرائز میرزا ادیب کو مل سکتا تھا؟

67

”صحراء نورد کے خطوط“ اور پھر ”صحراء نورد کے رومانس“ یہ وقت کے سب سے بڑے لکھارے جن کی آپ بیتی ”مٹی کا دیا“ کے نام سے چھپی اور تہلکہ مچ گیا۔ میری مراد میرزا ادیب سے ہے۔ یہ نام بیک وقت بچوں کا ادب، ادبی حلقے اور ناولوں، ڈراموں کی دنیا میں یکساں مقبول تھا، لمبے قد کی یہ ہستی ادب کی دنیا میں بھی اونچے مقام پر فائز تھی، ادبی حلقوں میں یہ بات بھی زبان زد عام تھی کہ اگر کچھ چالبازیاں نہ ہوتیں تو شاید میرزا ادیب کے افسانوں کے مجموعوں …… صحرا نورد کے خطوط اور صحرا نورد کے رومانس کو ”ادب کا نوبل پرائز“ مل جاتا۔ ادبی چپقلش، سیاسی مخاصمت سے زیادہ خطرناک رہی ہے۔ ”لیفٹ“…… ”رائٹ“ کی جنگ ادبی علمی دنیا میں طویل عرصہ تک چلی اور اس کے مثبت پہلو تو تھے ہی زیادہ تر اس کے منفی اثرات سامنے آئے۔
نامور شاعر جناب فیض احمد فیض کو ادب کا لینن ایوارڈ ملا تو کئی حلقوں سے اُن پر تنقید ہوئی…… یہ پاک ٹی ہاؤس لاہور میں گرما گرمی کا دور تھا۔ کیا لینن ایوارڈ، نوبل پرائز کے برابر یعنی ہم پلہ تھا؟! یہ بحث طویل عرصہ جاری رہی۔ شاید اس پر کوئی حتمی رائے قائم ہوتی کہ کمیونزم کے کرتا دھرتا لینن، سٹالن یہاں تک کہ صدر بریزتیف کے بعد یہ نظریہ مضبوط ہاتھوں سے تھاما نہ جا سکا یہاں تک کہ 1978ء کے بعد سے سختیاں کم ہونا شروع ہوئیں اور چلتے چلتے معاملہ گورباچوف تک آ گیا اور تقریباً یو ایس اے کے ہم پلہ یو ایس ایس آر بکھر کر رہ گیا اور تاریخ کی کتابوں میں گم ہو گیا۔ اب سپر پاور والا معاملہ امریکہ تک محدود ہے اور ”یونی لیٹرل“ سسٹم ہی کامیابی سے چلتا دکھائی دیتا ہے۔ Space تک رسائی کے حوالے سے ابھی تک دونوں ملک ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ بات کتاب، علم، عالمی سطح کے انعامات اور اردو کی پاکستان میں ادبی رونقوں کے حوالے سے ہو رہی تھی دبستان لکھنؤ، دہلی یا دونوں کے ساتھ ساتھ معاملہ لاہور کے طاقتور ادبی حلقوں تک پہنچا اور طویل عرصہ تک شعر و ادب کے حوالے سے لاہور کی ادبی فضا ہموار اور مفاد عامہ کے لیے مفید رہی اور علم و ادب کی خوشبو کے نئے رنگ یہاں سے ابھرتے اور دنیا بھر میں بکھر جاتے یہاں سے اٹھتی خوشبو دنیا بھر میں محسوس کی جاتی۔ پھر کراچی،ملتان، اسلام آباد، پشاور بھی لپیٹ میں آئے۔ یہ ہماری جوانی کا دور تھا۔ شہر میں کوئی شعر ادبی حلقوں میں اٹھتا اور زبان زد عام و خاص ہو جاتا پھر اس دور میں غزل گوئی نے شاعری کو بالخصوص عجیب مقام عطا کر دیا۔ ہمارے ہاں مہدی حسن، غلام علی، امانت علی خان، غلام عباس، محترمہ نور جہاں، اقبال بانو نے فیض احمد فیض، فراز وغیرہ کا کلام گایا اور ادبی دنیا والوں کو بھی خوب پذیرائی ملنے لگی۔ مقام و مرتبہ بلند ہوا ادھر طلعت محمود کے بعد غزل کو جگجیت سنگھ نے بھی گایا اور اِک فضا سی بن گئی۔
کیوں اداس پھرتے ہو
سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے
اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز کا یہ شعر، اُن کے ایسے ہی ضرب المثل اشعار اور دوسرے شعراء کی نظمیں اور اشعار کے ساتھ ساتھ کچھ غزلیں بھی زبان زد عام ہوئیں۔ پھر ادبی کتابوں کا دور دورہ ہوا۔ جناب اشفاق احمد کے افسانوں کا مجموعہ مارکیٹ میں آیا، میرزا ادیب کے ڈراموں اور افسانوں کے مجموعے بام عروج پر تھے تیس تیس ایڈیشن چھپے پھر جناب عطاء الحق قاسمی کا سفر نامہ ”گوروں کے دیس میں“ جی الانہ کا ”سفر امریکہ“ ابن انشاء کا ”چلتے ہو تو چین کو چلئے“ اور پھر قدرت اللہ شہاب، مستنصر حسین تارڑ کے سفر ناموں کا دور شروع ہوا، عطاء الحق قاسمی کے لگاتار کتابی سلسلے عوام میں بے حد مقبول ہوئے، اے حمید، آغا اشرف سعید، لخت، اشفاق احمد یہ ادبی و فن کی علیحدہ دنیا تھی جس کی سر پرستی ”شاید“ ابن صفی نے کی……! مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر مختار مسعود، مسعود مفتی اور بہت سے لوگوں کی کتابیں آئیں ادھر شاعری کی کتابوں میں احمد فراز کی کتابیں، فیض احمد فیض کی نظموں کی کتابیں، امجد اسلام امجد، منیر نیازی، دھڑا دھڑ چھپتے اور بکتے رہے کہ ایسے میں فرحت عباس شاہ کی ”شام کے بعد“ بھی نمودار ہوئی اور پھر پاکستان بھرمیں ادبی قدر دانوں کے لیے بہت سے لوازمات اور ماحول بنتا چلا گیا۔
جناب اشتیاق احمد نے بچوں کے حوالے سے ناولوں کی اک علیحدہ دنیا آباد کی اور ہزاروں صفحات پر مشتمل ناول تخلیق کیے جو ہاتھوں ہاتھ بکتے رہے اور اب تک اشتیاق احمد کی پذیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔
اُس دور میں بڑے لکھاریوں کی پاکٹ سائز کہانیوں کا سلسلہ بھی طویل عرصہ تک چلتا رہا اور بچوں میں بے حد مقبول ہوا ”صاحب کتاب“ ہونا بلاشبہ ہر لکھاری کا خواب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے دو نام قابل ذکر ہیں۔ نذیر انبالوی اور احمد عدنان طارق، نذیر انبالوی فلمی گانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے کہانیاں اور طنز و مزاح کے حوالے سے کتابیں ترتیب دیتے رہے۔ کہانیوں کا طویل سلسلہ جو اسلامی کہانیوں، اقوال زریں اور مزاح کے حوالے سے نہایت کامیاب رہا احمد عدنان طارق نے 1913ء کے بعد بچوں کے لیے لکھنے کا دوبارہ سلسلہ شروع کیا اور اب تک ان کی 40 سے زائد کتابیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔
حکومتی سطح پر سیرۃ النبیؐ پر ہر سال کتابوں پر ایوارڈ دیے جاتے ہیں اس کے علاوہ یونائیٹڈ بینک ادبی ایوارڈ طویل عرصہ سے جاری ہے مجھے بھی میری نظموں کی کتاب ”جاگو ہوا سویرا“ پر عرصہ پہلےUBL ادبی انعام ایوارڈ ملا جس کے ساتھ کیش ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے۔ محترمہ تسنیم جعفری، احمد عدنان طارق اور نذیر انبالوی کے علاوہ بہت سے لکھاری یہ ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔ محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ نے سائنس فکشن کے حوالے سے بچوں کے ادب کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا اور اُس کی دس کے قریب کتابیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں اور بچوں کی طرف سے پذیرائی بھی مل چکی ہے۔
ادھر ادب اس وقت پھر گروہ بندی، سیاسی اور ذاتی مخاصمتوں کا شکار ہے لیکن جو سنجیدہ لوگ ہیں وہ عالی شان ادب تخلیق کرتے چلے جا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
کہ ان ادبی بحث مباحثوں کی بدولت نئی نسل کو بھی اس ادبی گرما گرم ماحول میں ”اِن“ ہونے کا موقع ملتا ہے اور خواہش پیدا ہوتی ہے اگر حکومتی اور نجی شعبہ سرپرستی کرے تو کتاب اور لکھاری پاکستان بھر میں ہر شعر قصہ میں یہ مثبت سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس کا ثبوت کراچی، لاہور، اسلام آباد کی ادبی کانفرنسیں ہیں۔ حال ہی میں ملتان میں کرن کرن روشنی کے چیف ایڈیٹر علی عمران ممتاز اور قاری محمد عبداللہ نے ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ”قومی کانفرنس برائے ادب اطفال“ میں علی عمران ممتاز نے جہاں ملتان سے جناب سجاد جہانیہ، جناب شاکر حسین، اظہر سلیم مجوکہ، محترمہ صائمہ نورین بخاری، جناب امجد جاوید، جناب ریاض عادل، خواجہ مظفر نواز صدیقی، جناب ندیم اختر، جناب احتشام جمیل شامی صاحب کو بلایا وہیں کراچی سے سینئر لکھاری جناب این ایس محمد، احمد عدنان طارق، عبدالصمد مظفر، عقیل انجم اعوان، اسعد نقوی، ناصر ملک، اختر سردار چوہدری، غلام زادہ نعمان صابری، امان اللہ نیر، عزیز سلیم، حاجی لطیف کھوکھر، شہباز اکبر الفت کو بلایا۔ کانفرنس کے مختلف سیشن میں لکھاریوں نے مقالے پڑھے اور مختلف انعامات بھی دیے گئے۔ کتاب دوستی معاشرے میں مثبت سوچ پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے اچھا ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ امید ہے نئی نسل سے کوئی ایسا لکھاری ضرور ابھرے گا جو پاکستان کے لیے ادب کا نوبل پرائز لے کر آئے گا کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

تبصرے بند ہیں.