کانواں ”ٹولی“ اکو بولی۔۔۔۔۔

30

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کانواں ٹولی اکو بولی اس وقت تو عقل سے عاری تھے جب”پنڈ“ کے بابے یہ مثل سنایا کرتے تھے اب جب عقل داڑھ نکلی ہے اور خود بابے بنے ہیں تو سمجھ آئی ہے کہ یہ مثال موجودہ سیاستدانوں پر مکمل صادر ہو تی ہے کہ اپنا کوئی کام ہو تو سب ایک جگہ پرگلچھڑے اڑا ؤ، تنخواہیں بڑھانی ہوں تو کسی کو کانوں کان خبرتک نہیں ہوتی اپنے کیسزختم کروانے ہوں توتمام قاعدے قانون پاؤں تلے روند دیتے ہیں زمینوں پر قبضے کرنے ہوں توریونیوبورڈ سے لے کر ڈی سی تک جی حضوری کیلئے ان کے در پر حاضرہوجاتے ہیں لیکن جب عوام کے مفاد کی بات ہو تو سانپ سونگھ جاتا ہے سوائے چند ایک بیانات کے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا جس کی مثال ماضی میں عمران خان کے دور میں بلاول بھٹو کے مہنگائی کیخلاف لانگ مارچ سے ملتی ہے پھر وقت نے کروٹ لی اور پی ڈی ایم کی حکومت آ گئی مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کرنیوالوں نے مزید مہنگائی کردی بلاول بھٹو سمیت کسی کو بھی مہنگائی صرف اس لئے نظرنہ آئی کہ سب نے کالا چشمہ لگایا ہوا تھا
لگا کر آگ شہر کو بادشاہ نے کہا
اُٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر سبھی شاہ پرست بولے حضور!
شوق سلامت رہے شہر ہیں اور بہت
پھر یہ سارے پرندے اپنی ڈیڑھ سالہ حکومت ختم ہونے پراپنے اپنے بلوں میں گھس گئے نگران حکومت کی شکل میں پہلے پنجاب میں اور اب وفاق میں سائیں بزدارکو بٹھا دیا گیا ماضی میں کچھ بدلا نہ اب بدل رہا ہے اکٹھے حلوہ کھانے والے اب سب اقتدار کیلئے لڑائی لڑ رہے ہیں کل کے حلیف آج کے حریف بن گئے،اب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہمیں کوئی دیوار سے نہیں لگا رہا، الیکشن شیڈول آنے کے بعد ہی انتخابی اتحاد کی بات کی جا سکتی ہے، بلاول بھٹو کہتے ہیں اس وقت ملک میں سیاسی بحران ہے، پیپلز پارٹی نے ماضی میں ایک سال کے اندر معاشی بحران کا خاتمہ کیا جو سفید جھوٹ ہے
کیونکہ ان کے ہی دور میں ڈالرکی ٹرپل سنچری ہو ئی،چیئرمین پیپلزپارٹی اب نئے دلفریب نعرے کے ساتھ پنجاب کو لولی پاپ دینے کیلئے میدان میں آئے ہیں اب یہ بھی فرما رہے ہیں تمام مسائل صرف پیپلزپارٹی ہی حل کرسکتی ہے، ہماری پارٹی کو لیول پلئنگ فیلڈ نہ ملی تو پھر زرداری سے کہیں گے ہمارے ہاتھ کھول دیں،للکارا مارتے ہوئے کہتے ہیں پیپلزپارٹی کو دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا،آج بھی عمران خان اور بین الاقوامی اداروں کی وجہ سے پاکستان متعدد مسائل سے دوچار ہے لیکن عمران خان کو بند کرنے سے ملک کے تمام مسائل حل نہیں ہوں گے، پیپلزپارٹی کا اپنا مکان منصوبہ مکمل ہونے کے بعد 20 لاکھ افراد کو گھر ملیں گے، کاش یہ سب کچھ کہنے سے پہلے بلاول آئینہ دیکھ لیتے تو انہیں سچ نظر آ جاتا
کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے
دوسری طرف پچاس روپے کے اشٹام پر خود ساختہ علاج کے بہانے لندن جانے والے ن لیگ کے قائد نواز شریف بین بجا رہے ہیں پی ڈی ایم ملک کو ڈیفالٹ سے نہ بچاتی تو آج ملک میں پٹرول ایک ہزار روپے لیٹر ہوتا، اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگا کر پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے ووٹ کو عزت دو کے بعد ایک نئے نعرے کے ساتھ خود احتسابی کا پیغام سنا رہے ہیں جناب اگر احتساب اور خود احتساب ہوتا تو آج عوام کے نام پر ملک لوٹنے والے جیلوں میں ہوتے اور عوام خوشحال ہوتے جو آج مہنگائی بے روز گاری لاقانونیت کی وجہ سے پریشان ہیں، ماضی کی تمام حکمران جماعتوں نے عوام کو انصاف اور ان کا حق اختیار نہ دیا، یہاں تک کہ تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رکھا، اب بھٹو، نواز شریف، عمران خان، یا کسی اور شخصی سورماؤں کے نام پر لوگوں کو دھوکہ نہ دیں، پیپلز پارٹی، ن لیگ، تحریک انصاف، جے یو آئی اور دوسری جماعتیں عوام کو بتائیں پاکستان کو اس حال تک کس نے پہنچایا؟ کبھی نیشنل ازم کے نام پر اور کبھی کک بیکس، امیر المومنین، دین اور جمہوریت کے نام پر عوام کو اور پاکستان کو کس نے معاشی اور معاشرتی طور پر کنگال کیا؟ عوام کے سامنے اب چوری اور سینہ زوری نہیں چلے گی، لوٹا کریسی، خرید وفروخت، رشوت اور اقربا پروری کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے، جمہوریت میں حکمرانی اور اختیار جمہور کا ہوتا ہے،یہاں خاندان در خاندان پاکستان پر مسلط ہیں عوام روٹی،کپڑا، صحت سہولیات کیلئے ترس رہے ہیں،تھانہ کچہری میں عوام استحصال کا شکار ہیں یہ بند کمروں میں بیٹھ کر اپنے مفادات کے سودے کر رہے ہیں، جمہوریت اور آٹے چینی کے نام پر عوام کو بنایاجا رہا ہے، افسوس ملک بنانے والے چلے گئے اور جو انگریزوں کے پھٹو تھے ملک پر قابض ہو گئے
نیرنگیئ سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان ایک دفعہ ہندوستان کے دورے پر آگئے، اس موقع پر ایک نغمہ گایا گیا جو انکے دل کے تاروں کو چھو گیا، ایوب خان کو یہ نغمہ اس قدر اچھا لگا کہ اس نغمہ نگار سے ملنے کا ارادہ ظاہر کر دیا، جب صدر ایوب خان کو شاعر کے متعلق بتایا گیا کہ اس شاعر کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ حیران رہ گئے، پاکستان واپس جاتے ہی صدر ایوب نے اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے تلاش کیا جائے اور میرے سامنے لایا جائے، صدر کا حکم سنتے ہی ماتحتوں کو وختہ پڑ گیا، ساغر صدیقی داتا دربار کے باہر کمبل میں لپٹے ہوئے زمانے کی ستم ظریفی پر شکر ادا کر رہے تھے، لاکھ منتوں سماجتوں کے باوجود شاعر نے ایوب خان کے پاس جانے سے انکار کر دیا، آخر کار جب بے حد اصرار بڑھ گیا اور ماتحت زبردستی پر اتر آئے تو اس فقیر نے پاس پڑی ہوئی سگریٹ کی خالی ڈبیا اٹھائی، اس میں سے ایلو مینیم کی فوئل نکالی (جسے عام زبان میں کلی یا پنی بھی کہتے ہیں) دکاندار سے نہایت مؤدبانہ انداز میں قلم مانگا اور اس فوئل پر 2 سطریں تحریر کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ یہ صدر صاحب کو جا کر دے دو۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

تبصرے بند ہیں.