یہ کہانی ان مڈل کلاس نوجوانوں کی ہے جنہوں نے انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ پیسے کمائے اور اپنے لائف اسٹائل کو یکسر بدل دیا۔ یہ سارے نوجوان پاکستانی ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں رہ کر ہی اپنی تقدیر بدلی۔ ان میں سے کوئی بھی لاہور، کراچی یا اسلام آباد جیسے شہر میں نہیں رہتا۔ انہیں وہی سہولیات میسر تھیں جو کسی بھی مڈل کلاس نوجوان کو مل سکتی ہیں۔ ان میں ولی شاہ بھی شامل ہے۔ ولی شاہ کے والد ایک گھر میں چوکیدار تھے۔ حالات ایسے تھے کہ ولی شاہ کو کئی روز فٹ پاتھ پر سونا پڑا، یہ لنگر خانوں سے صدقات و زکوٰۃ کا کھانا کھاتا رہا پھر اس نے گھر کے حالات سدھارنے کے لیے دیہاڑی پر رکشہ چلانا شروع کیا اور پانچ سے چھ ہزار روپے ماہانہ کمانے لگا۔ آج ولی شاہ سپین سے منگوائے ساڑھے پانچ لاکھ کے جوتے پہنتا ہے کیونکہ قد قدرے کم ہونے کی وجہ سے اسے اپنی ہیوی بائیک چلانے کے لیے ان بوٹوں کی ضرورت تھی۔ اس کے والد جس گھر میں چوکیدار تھے وہاں ولی نے مالکوں کی گاڑی کے ساتھ سیلفی بنائی تو مالکوں نے اسے اور اس کے والد کو خوب ذلیل کیا۔ تب اس نے سوچا کہ ایک دن وہ ان سے زیادہ مہنگی گاڑی خریدے گا۔ آج اس کے پاس ذاتی مہنگی کار ہے۔ ولی شاہ آج کل اپنے انہی چوکیدار والد کے ساتھ عمرے پر گیا ہوا ہے اور اپنے اہل خانہ کے وہ سب خواب پورے کر رہا ہے جو انہوں نے حالت غربت میں دیکھے تھے۔ دوسری کہانی فیصل عباس کی ہے، فیصل بھی گوجرانوالہ کا نوجوان ہے جو ایم فل مارکیٹنگ کے بعد بچوں کو گھروں میں پڑھاتا تھا اور پانچ ہزار ماہانہ کماتا تھا۔ قسمت آزمانے کے لیے دبئی گیا اور ناکام لوٹ آیا۔ اس نے جو آخری ملازمت کی وہ 15 ہزار ماہانہ پر تھی، آج فیصل کے پاس 20 ملازمین ہیں جن کی بنیادی تنخواہ اس نوجوان کی آخری تنخواہ سے زیادہ ہے۔ فیصل آج 20 لاکھ روپے ماہانہ کما رہا ہے اورگوجرانوالہ بیٹھ کر انٹرنیشنل مارکیٹ میں کام کرتا ہے۔ تیسری کہانی ایک درزی کے بیٹے کی ہے۔ اویس اسلم کے والد درزی تھے جنہوں نے اپنے بیٹے کو انجینئر بنایا لیکن انجینئر بننے کے بعد اویس اسلم کو معلوم ہوا کہ یہاں وہ بہت زیادہ بھی کما لے تو بھی 1 لاکھ تک کما سکے گا اور اس کے لیے بھی اسے کئی سال لگ جائیں گے۔ اس نے سیف سٹی میں بھی کام کیا اور 20 ہزار تنخواہ لی۔ اس نوجوان نے بھی اپنی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا۔ آج اویس اسلم کی ماہانہ کمائی 20 لاکھ روپے ہے، اس کا دبئی میں ویئر ہاؤس ہے جہاں 30 ہزار کے قریب ایپل لیپ ٹاپ موجود ہیں۔ اس کی بھی مکمل ٹیم ہے۔ پاکستان کے علاقہ گوجرانوالہ میں ہی ایک نوجوان مزمل ہے جس نے ابھی اپنی عمر کی تین دہائیاں بھی پوری نہیں کیں لیکن اس کی ماہانہ آمدن بھی لاکھوں روپے ہے اور یہ پاکستان کی باقاعدہ 10 ڈیٹا سائنس لیب میں سے ایک کا مالک ہے اور اب تک سب سے کم عمر ڈیٹا سائنس لیب ایکسپرٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ایسی کئی کہانیاں ہمارے ارد گرد بکھری ہوئی ہیں۔ پاکستان کا تعارف یہ نوجوان ہیں جنہوں نے اپنے ملک کا نام روشن کیا اور پاکستان میں ڈالرز لا رہے ہیں۔ یہ سب فری لانسر ہیں، ان سب نے ڈیجیٹل میڈیا کی فیلڈ میں اپناکیریئر تلاش کیا اور کامیاب رہے۔فیصل سوشل میڈیا مارکیٹ ایکسپرٹ ہے، اویس ای کامرس مارکیٹ سے منسلک ہے،مزمل ڈیٹا سائنس کے شعبے میں ہے اور باقی بھی ڈیجیٹل میڈیا کے کسی نہ کسی شعبہ سے منسلک ہیں۔ میں نے ان سب سے ایک ہی سوال کیا کہ اگر کوئی ایسا شخص جسے ڈیجیٹل میڈیا کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم اگر وہ آپ کی طرح ماہانہ لاکھوں روپے کمانا چاہے تو اسے کتنا وقت درکار ہو گا۔ ان سب کا ایک ہی جواب تھا کہ اگر کوئی شخص محنت کرے، لگن سے سیکھے اور پریکٹس کو وقت دے تو 6 ماہ میں وہ اس قابل ہو جائے گا کہ ڈالرز کمانے لگے۔ ان نوجوانوں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر شخص ڈالر کا ریٹ بڑھنے پر پریشان ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا میں کام کرنے والے فری لانسرز کو ڈالر ریٹ بڑھنے سے مزید فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ پاکستانی روپے میں ان کی آمدن مزید بڑھ گئی ہے۔
میں ان سے مل کر سوچتا رہا کہ بے روزگاری، مہنگائی اور غربت ہماری کمزوری بھی ہے اور طاقت بھی۔ ان سب نے انتہائی برے حالات میں کچھ کرنے کا سوچا اور وہی برے حالات ان کی طاقت بن گئے۔ غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر جانے کی کوشش اور راستے میں مارے جانے یا دیار غیر میں سخت مزدوری کرنے کے بجائے اگر کوئی نوجوان 6 ماہ لگا کر ایسی سکلز سیکھ لے اور کسی تجربہ کار شخص کے ساتھ انٹرن شپ کر لے تو وہ بھی لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔ جرائم کا راستہ اختیار کرنے، رشوت لینے، فراڈ کرنے یا پھر مایوسی کا شکار ہونے سے کہیں بہتر ہے کہ حق حلال میں امیر ہونے کا ہنر جانیں۔ اپنے بچوں کو اس انڈسٹری کی طرف لائیں۔ سکول کالجز کی چھٹیوں میں یہ ہنر سکھائیں، کسی ایکسپرٹ سے مشورہ کریں، 6 ماہ بچے اسی طرح لگائیں جیسے سی ایس ایس یا میڈیکل کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ چھ ماہ آپ کی زندگی بدل سکتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ بھی ہے، جنون بھی، دوسری جانب گھر بیٹھے پوری دنیا کی مارکیٹ بھی آپ کے سامنے ہے۔ اتنی بڑی انڈسٹری میں پاکستانیوں کے لیے بے پناہ جگہ ہے۔ اب تو انگریزوں سے بات چیت بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہی نوجوانوں نے ایسے ایسے ٹولز اور طریقے بتائے ہیں جن کی مدد سے انگریزی بالکل نہ جاننے والا شخص بھی انگریز کلائنٹس سے گفتگو کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی ایک الگ کالم کی گنجائش نکلتی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.