بھارتی جنگی جنون،دنیا کو نوٹس لینا چاہیے

25

ہم جنگوں کے کبھی بھی حامی نہیں رہے ہم سمجھتے ہیں جنگوں سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں اس لئے ہمیشہ امن کی بات کی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں بھارت میں جب سے مودی بر سر اقتدار آئے ہیں وہاں نفرت کی آگ جنون کی شکل اختیار کر چکی ہے جس سے بھارت خود تو جلے گا خدشہ ہے اگر وہاں حکومتی سطح پر اشتعال انگیزی پر قابو پانے اور نفرت کی آگ کو کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ آگ بھارت کے ساتھ علاقے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی پلوامہ واقعے کے بعد بھارتی شر انگیزی میں ہر سطح پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بھارت کے اندر بسنے والے کشمیریوں پر حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ بھارتی میڈیا ہمیشہ کی طرح جنگی ماحول پیدا کرنے میں پیش پیش ہے۔ بھارتی پاگل پن سے بچنے کے لئے جہاں ایک طرف پاکستان نے بھارت کو دعوت دی کہ آئیں امن کی بات مذاکرات کی میز پر کرتے ہیں اور خطے کے اڑھائی کروڑ انسانوں کو نفرت کی آگ سے بچانے کے لئے اقدامات اٹھانے کے ساتھ اسے تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر ہم سوچیں گے نہیں بھر پور جواب دیں گے تو دوسری جانب پاکستانی سپہ سالارنے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ہم آخری سانس اور گولی تک ملک کا دفاع کریں گے، بھارت ہمیں حیران نہیں کرسکتا‘ہم اسے حیران کریں گے‘ حملہ ہواتواس بار پاکستان کا فوجی ردعمل مختلف ہوگا‘ ہم جنگ کی تیاری نہیں کررہے بلکہ جنگ کی صورت میں جواب دینے کی تیاری کررہے ہیں‘امید کرتے ہیں کہ پاکستان کی طرف سے آپ کو پیغام مل گیا ہوگا75 سال آپ کو دیکھا، آپ کیلئے ہی صلاحیتیں حاصل کیں، ہم نے غلطیاں کیں اور ان سے سیکھا بھی لیکن اب نہ غلطی کی گنجائش ہے اور نہ اس کا ارادہ ہے‘ بھارت آج تک ہماری آزادی کو تسلیم نہیں کرسکا‘اس نے ہمیشہ ہمارے خلاف سازشیں اور دہشت گردی کی‘ بھارت جنگ کی تیاریاں کر رہا ہے، دفاع کا حق رکھتے ہیں‘ پاکستان ذمہ دار ملک ہے‘جنگ چاہتے ہیں نہ جنگ کی بات کرتے ہیں‘بھارتی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیں گے، جب بھی پاکستان میں کوئی اہم ایونٹ ہونے جارہا ہوتا ہے تو بھارت یامقبوضہ کشمیر میں ایساواقعہ پیش آجاتا ہے، اب بھی ایسے 8 اہم ایونٹس ہیں جو پاکستان سے متعلق ہیں تو مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ واقعہ پیش آگیا‘بھارت امن چاہتاہے توکلبھوشنوں کو یہاں مت بھیجے۔
ساری دنیا جانتی ہے کہ جنگیں کبھی بھی مسائل کا حل نہیں رہیں ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ مذاکرات کی ٹیبل پر ہی معاملات طے ہوتے آئے ہیں۔ اب تو جنگوں کی ہولناکی کا تصور ہی رونگٹے کھڑئے کر دینے کے لئے کافی ہے اور اس وقت تو خوف میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب فریقین ایٹمی طاقت کے بھی حامل ہوں۔ دنیا جاپان کے دو شہروں پر امریکی ایٹمی بم باری کو ہی کبھی فراموش نہیں کر پائے گی جس کے نتیجے میں انسانیت ابھی تک سسک رہی ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ جب بھی مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے دونوں ممالک میں امن دشمن قوتیں کوئی نہ کوئی حرکت کر دیتی ہیں کہ مذاکرات میں تعطل پیدا ہو جاتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہیں۔ 1980ء کی دھائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا گیا ہے۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازعہ، 1989ء میں کشمیر میں کشیدہ صورتحال، 1998 میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور 1999ء کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے 2003ء میں جنگ بندی کا معاہدہ اور سرحد پار بس سروس کا آغاز کیا گیا ہے مگر تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں 2001ء میں بھارتی پارلیمان عمارت پر حملہ، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکہ اور 26 نومبر 2008ء ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔ 2001ء میں ہونے والے بھارتی پالیمان پر حملے نے دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا سا سماں پیدا کر دیا تھا اور دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آچکی تھیں بلکہ ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلانے لگے تھے لیکن کچھ ممالک کی بروقت مداخلت سے یہ جنگ ٹل گئی۔ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر حملے سے تقریبا 68 افراد مارے گئے جن مین زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے تھا۔ 2008 کے ممبئی حملے، جن کو پاکستانی دہشت گردوں سے منسوب کیا جاتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان امن تعلقات کو سبوتاژ کرنے کیلئے اہم ثابت ہوئے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اشتعال انگیزی کے باوجود پاکستان پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی خواہش رکھتاہے تو یہ کوئی بری بات بھی نہیں کیونکہ پاک بھارت بہتر تعلقات سے خطے کے تقریباًاڑھائی ارب انسانوں کی زندگی اور خوشحالی وابستہ ہے اور جنگی جنون دونوں ملکوں کو اسلحے کی دوڑ میں تو شامل کر ہی چکا ہے خطے کے دیگر ممالک خصوصاً سارک ممالک بھی پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں بھارت کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے امن اور مذاکرات کی پیشکش پر غور کرنا چاہیے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آتی ہے تو اس سے تجارت کو فروغ ملے گا اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا جو دونوں ملکوں کی ضرورت ہے۔ اگر ہم علاقائی صورت حال کو دیکھیں اور دہشت گردوں کی کاروائیوں پر نظر دوڑائیں تو دونوں ملکوں کے مابین دوستانہ تعلقات ماضی کی نسبت آج زیادہ ضروری اس لئے ہیں کہ دہشت گرد ساری انسانیت کے دشمن ہیں جن سے لڑنے کے لئے علاقائی تنازعات کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ضمن میں ایک طرف بھارتی دانشوروں میڈیا اور سٹیک ہولڈرز کو بھارت سرکار اور چند مفاد پرست گروہوں کے جنون سے خود بھارت کو بچانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے تو دوسری جانب دنیا خصوصاً اقوام متحدہ کو بڑھتے ہوئے بھارتی جنگی جنون پر نوٹس لینا چاہیے تاکہ یہ خطہ جنگ سے محفوظ رہ سکے۔

تبصرے بند ہیں.