مہنگی بجلی کے خلاف کامیاب ہڑتال

75

ہم ایک ایسی سر زمین کے باسی ہیں، جس میں دنیا جہاں کی ہر نعمت موجود ہے، سنگلاخ چٹانیں، آسمان سے باتیں کرتے برف پوش پہاڑ لہلاتے کھیت، گہرے سمندر، زیر زمیں معدنیات، میلوں تک پھیلے صحرا، بہترین نظام آبپاشی، محنتی، جواں سال افرادی قوت اس ریاست کا نایاب اثاثہ ہیں، اس کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب عوام کو کسی نہ کسی بحران کا سامنا نہ ہو، اگر چینی کمیاب ہو تو آٹا میسر نہیں ہوتا، یہ مل جائے تو کسان کو فصل کے لئے پانی، خالص بیج، سپرے، ارزاں نرخوں پر اصلی کھاد دستیاب نہیں ہوتی، مافیاز کی گرفت میں سماج کا ہر گزرتا دن اس کے لیے کوئی نہ کوئی مصیبت لے کر آتا ہے، اب کی بار مہنگی بجلی نے تو لوگوں کے ہوش اڑا دیئے ہیں، زندگی اتنی ارزاں ہو گی یہ سوچا بھی نہ تھا، بھاری بھرکم بل کسی کی جان لے گا، اس کا تصور بھی محال تھا مگر یہ سب ان گنہگار آنکھوں نے دیکھ لیا، اب تو گھبرا کر کہتے ہیں مر جائیں مگر مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں۔ ارباب اختیار بھی دھیرے دھیرے عوام کی پشت پر معاشی بوجھ لاد رہے تھے، مہنگی بجلی کے بلوں سے عوام کے صبر کا پیمانہ اتنا لبریز ہوا، اس نے باہر نکلنے کا قصد کرلیا، جماعت اسلامی جو گذشتہ ایک سال سے مہنگائی اور کرپشن کے خلاف تحریک چلا رہی تھی، عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسکی آواز میں آواز ملائی، تاجر برادری سے ہڑتال کی اپیل کی، یوں عوامی سطح پر ایک پر امن اور کامیاب ہڑتال نے واضع پیغام دیا کہ عوام کو غلام نہ سمجھا جائے گوشت پوست کے انسانوں کوبھی جینے کا حق دیا جائے، اشرافیہ مفلوک الحال عوام پر اتنا بوجھ نہ ڈالے کہ معاملات خانہ جنگی کی طرف چلے جائیں۔ مذکورہ وسائل کے باجود اگر عوام سے جینے کا حق چھینا جارہا ہے، تو پھر یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ قومی وسائل کا فائدہ عام فرد کو کیوں نہیں پہنچ رہا ہے، یہ چند ہاتھوں تک کیوں محدود ہیں، تمام تر نعمتوں کے باوجود آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اتنا جر م کیوں ہے کہ ارباب اختیار کو ریلیف دینے کے لئے بھی اس سے اجازت لینا پڑ رہی ہے، ماں جیسی ریاست کہاں ہے جو عام شہری کی اشک شوئی کرنے سے قاصر ہے۔ جماعت اسلامی کے معروف سنیٹر مشاق احمد نے مہنگی بجلی کا سبب ان معاہدات کو قرار دیا ہے جو ماضی کی حکومتوں نے آئی پی پیز سے کئے ہیں، انھوں نے عوام کو ریلیف دینے کے لئے تجاویز بھی دی ہیں، جب پورا ملک مہنگی بجلی کے خلاف سراپا احتجاج تھا، وہ سیاسی قیادت منظر سے غائب تھی جن کے ادوار میں مہنگے معاہدے ہوئے تھے، اخلاقی طور پر تو مشکل گھڑی میں انھیں عوام کے درمیان ہونا چایئے تھا۔ دستیاب حالات میں اگر انھوں نے لوڈشیڈنگ سے نجات کے لئے کڑوا گھونٹ پیا تھا تو اس پر عوام کو اعتماد میں لیا جاتا، عوام پر سارا بوجھ ڈالنے کی بجائے اشرافیہ سے مفت بجلی کی سہولت وآپس لے لی جاتی تو عوام کا پارہ اتنا ہائی نہ ہوتا،پر امن اور کامیاب ہڑتال میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا،کہ جس طرح عام شہری یوٹیلیٹی بل اپنی جیب سے ادا کرتا ہے اسی طرح اشرافیہ بھی ادا کرے، اس ضمن میں کسی کو امتیاز حاصل نہ ہو۔ بعض ماہرین کا موقف ہے کہ بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ بد انتظامی بھی ہے، بہت سے سرکاری محکمہ جات تاحال نادہندہ ہیں،بجلی کی چوری ایک درینہ معاملہ جو حل طلب ہے، یہی معاملہ لائن لاسز کا ہے جس کی قیمت بہرحال عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے، ملازمین کو دی جانے والی مفت بجلی اس کے علاوہ ہے، محدود آمدنی رکھنے والا یہ بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، ماضی کی تمام حکومتیں بخوبی جانتی تھیں کہ مہنگی بجلی ایک دن درد سر بن جائے گی، مگر انھوں نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رکھیں، عام شہری بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہماری کرنسی تو روپیہ ہے تو پھر ڈالر میں آئی پی پیز کو ادائیگی اور بغیر استعمال کے فالتو بجلی کی پیشگی قیمت ادا کرنے کا معاہدہ تو شائد ایسٹ انڈیا کمپنی بھی نہ کرتی، جس طرح یہاں کی اشرافیہ نے اپنے مفاد کے لئے عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈال کر انکی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی عجلت میں کئے گئے فیصلے اب وبال جان بن گئے ہیں۔ شنید ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے عوام دشمن معاہدوں کے خلاف عدالت عظمیٰ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سستی بجلی پیدا کرنے کے بہت سے قدرتی وسائل بھی دستیاب ہیں، ان میں قابل ذکر تو کالا باغ ڈیم کی تعمیر تھی جس کو سیاست کی نذر کر دیا گیا اگرچہ اب بھی کچھ ڈیم زیر تعمیر ہیں مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور بجلی کی ضروریات کو سامنے نہ رکھتے ہوئے جو تاخیر ہوئی اس کا خمیازہ عوام اور سرکار دونوں بھگت رہے ہیں، بڑی سیاسی پارٹیاں جنہوں نے اقتدار کو انجوائے کیاہے وہ عوام کے غضب سے پریشان ہیں، کیونکہ یہ معاملہ محض بل کی ادائیگی کا نہیں ہے، مہنگی بجلی کے اثرات ہر شعبہ زندگی پر نمایاں ہیں، صنعت کا پہیہ سست روی کا شکار ہے،جس کی کوکھ سے روزگار جنم لیتا ہے، مقابلہ کی فضا میں اشیاء کی برآمدات ناممکن نہیں مگر مشکل ضرور ہیں، مہنگی بجلی کی موجودگی میں سرمایہ کاری کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ وہ عوام جو ماچس کی ڈبیا سے لے کر جہاز کے ٹکٹ تک ٹیکس دیتے ہیں وہ شکوہ کناں ہیں کہ اس کے باوجود ان کی حیاتی میں آسودگی نہیں، مگر سرکار صاحب ثروت کی جانب سے ٹیکس نہ دینے کی شکایت کرتی ہے، ٹیکس معاملات میں خلاء کہاں ہے اس پر غورو خوض کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت صرف سرکاری ملازمین ہی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں جس کا حجم کاروباری طبقہ سے زیادہ ہے، جماعت اسلامی کی کال پر ہڑتال میں شریک تاجر برادری کو بھی اپنی صفوں میں جائزہ لینا ہوگا کہ تمام تر سہولیات سے فائدہ اٹھانے کے باوجود جو تاجر ٹیکس ادا نہیں کرتے ان سے باز پرس کی جائے، عسکری قیادت سمجھتی ہے کہ ملک کا دفاع مضبوط معیشت سے بھی عبارت ہے۔ مہنگی بجلی کے جن ذمہ داران  نے عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا ہے ان کا محاسبہ بھی لازم ہے،مقام حیرت ہے کہ واپڈا کے ملازمین مفت بجلی سہولت کے خاتمے کے خلاف اس وقت سراپا احتجاج ہیں جب بھاری بھر کم بل دیکھ کر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں، اسی بے حسی نے عوام کو ہڑتال کرنے پر مجبور کیا ہے، کامیاب اور پر امن ہڑتال کا سہرا جماعت اسلامی کے سر ہے۔

تبصرے بند ہیں.