گورکن کی دہائی

87

کہتا ہے فخرسے کوئی کہ میں کوہ کُن ہوں
دیتا ہے دہائی کوئی کہ میں خوش کُن ہوں
کھلتے نہیں لب میرے کہوں کیسے آخر
اجڑی ہوئی بستی کا میں کہ اک گورکن ہوں
شہر کے ہنگاموں اور گہماگہمی سے دور، دعوت عبرت دیتے ہوئے بستی کے ایک خاموش قبرستان کے ایک کونے میں بنی کٹیا سے، ایک گورکن کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔۔۔یا الٰہی خیر….! میں بستی سے پھر سے نوحوں کی صدا ئیں سن رہا ہوں، ہوائیں مجھے بھیگی بھیگی سی لگ رہی ہیں اور فضائیں سوگوارمحسوس ہو رہی ہیں……! یہ کون کس سے بچھڑ گیا…..؟ یہ کون موت کے بے رحم پنجوں کا شکار ہو ا….؟ یہ کس کو کس کی نظر کھا گئی……؟ یہ کون کس سے روٹھ گیا…….؟ یہ کیسا حواس باختہ شور ہے…….! میرے مالک…..! کب تک۔۔ آخر کب تک۔۔۔میں یادوں کا کفن پہنے بے جان لاشے کی طرح پھروں گا….؟ کب تک……!
میرے خدایا……! کسی کو تونے دولت مند بنایاتوکسی کو استاد کا درجہ دیا، کوئی کسان بن کر اناج اگا رہا ہے تو کوئی تجارت سے لوگوں کو فائدہ دے رہا ہے۔یہاں سب لوگ مختلف کاموں سے سب کے کام آرہے ہیں اور میرے حصے میں کیا کام آیا ہے…! میں کوئی شکوہ نہیں کرتا مگر اے میرے مالک…..! اے میرے خالق…….! تو نے مجھے گورکن بنا کر اور ایک درد بھرا دل دے کر کس اذیت اور ابدی کرب میں مبتلا کر دیا ہے…….! دُکھ درد میں ایک دوسرے کے آنسو پونچھے جاتے ہیں، ایک دوسرے کے درد کا درمان کیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے کام آیا جاتا ہے۔مگر وہ کسی سے کیا غمگساری کرے کہ جس کے پاس آنے والے مریض،آنے سے پہلے ہی، ہر درد، رنج، غم، علاج اور دواسے بے نیازہو جاتے ہوں…..!
یہاں لوگ آتے ہیں،اپنے اپنے عزیزوں کی قبر پر چراغ جلا کر، دو گھڑی ٹھہرکراوررسماًپھولوں کی کچھ پتیاں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ایک عجب نفسا نفسی کا عالم ہے۔جس نے،جس کے لئے اپنی عمر وقف کردی،اپنی سب خواہشات اس پرنچھاور کردیں۔اس کے پاس تو اس کے لئے کوئی وقت ہی نہیں۔۔ جنازہ پر دعا کم، میل ملاپ اورمفادات کو زیادہ ترجیح دی جا تی ہے۔۔ زندگی تو زندگی، اب تو موت بھی کاروبار بن کررہ گئی ہے…….!
آہ! اے سوگوار ہواؤ….! تم ہی میرے دُکھ اور درد کا کوئی حل بتاؤ…………! تمہیں علم ہے کہ میری اذیت یک طرفہ نہیں کئی طرفہ ہے! ایک طرف اپنا دُکھ، دوسری طرف دوسروں کا غم، تیسر ی طرف اپنے گھر کا دکھ…..! ایک میری جھگڑا لو بیوی ہے،جو روز لوگوں کو مرتے دیکھتی ہے مگر پھر بھی عبرت نہیں پکڑتی۔ جس کی ہر صبح بے جاخواہشات سے شروع ہوتی ہے اور ہر شام خواہشات پر ختم ہوتی ہے! اور میرے بچے! وہ بھی اب آہستہ آہستہ اس کے رنگ میں رنگتے جا رہے ہیں۔ اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے اب فرمائشوں کی عمر تک آ پہنچے ہیں! جبکہ میرے کمزور بازو کب تک میرا سہارا ہونگے۔۔! میں چپکے چپکے موت کو اپنے دامن کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔۔۔!
اے میرے رب……! یہ آج کل موت اتنی بے رحم کیوں ہو گئی ہے…..! کس قدر چابکدستی اور بے رحمی سے اپنے شکار اچک رہی ہے۔ رحمت کے فرشتے کہاں مصروف ہیں…..! موت کا کھیل اور میرا دردبہت بڑھ گیا ہے…..! اے ویرانے کی آباد قبرو اور ان کے اندر لیٹے مکینو سنو….!
سنو کہ میں تمہاراساتھی ہو ں۔ تمہارے ساتھ ہو ں۔ تمہاری قبر کا چراغ ہوں۔ تمہارے لیے حرف ِ دعا ہوں۔ فطرت کی سر گوشیا ں ہر گام مجھے یہی کہہ رہی ہیں کہ جو جس کام پر مامور کیا گیا،اگر اس نے اسے امانت داری سے نبھایا تو سمجھو کہ وہ اپنی معراج کو پہنچ گیا…..! ہاں میں جانتا ہوں کے میں ایک گورکن ہوں مگر اس سے بہت پہلے میں ایک انسان ہوں۔بستی والوں کے لیے چاہے میں ایک نہ ہونے والی اور بے وزن چیز ہوں مگر وہ کیا جانیں کہ میرے سینے میں بھی ایک دھڑکتا ہوا درد مند دل ہے….! مردہ تو ایک قبر میں لیٹتا ہے مگر میں ہر قبر میں لیٹتا ہوں۔فوت ہونے والا ایک بار مرتا ہے اور میں دن میں کئی بار مرتا ہوں۔میں موت کے بعد کے بہت سے راز اور احوال جانتا ہوں۔کتنے ہی ایسے لوگوں سے واقف ہوں کہ جن کے جیتے جی کسی کی مجال نہ تھی کہ کوئی ان کے آگے سے بھی گزر جاتامگر آج وہ بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے قبروں میں لیٹے ہیں جن کی قبروں کو جانور تک پھلانگ کر گزر جاتے ہیں۔ کتنی بے نام ہڈیوں کے راز اور سراغ میرے سینے میں دفن ہیں۔۔۔!
اپنی دھن میں مگن گورکن نے بستی پر پھر سے نگاہ کی اور دہائی دینے لگا کہ اے اہل بستی۔۔۔! میں تو مردوں کی قبریں کھودنے کی پاداش میں گورکن ہو کر بدنام ہوا اور تم کیا ہو، تم تو اپنی بے ایمانی، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی، جبر، استحصال، مکرو فریب اور ظلم و جورسے لوگوں کو زندہ در گور کر رہے ہو۔ انسانیت کا چولا پہن کر تم کس طرح سے ننگ انسانیت بنے بیٹھے ہو۔۔۔!بے رحم گدھ کی طرح ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ رہے ہو۔۔۔تمھارے بظاہر پڑھ لکھے لوگ زیادہ ظالم، کرپشن زدہ، اخلاق باختہ اور بے حس ہو گئے ہیں۔۔۔تمھارے ڈاکٹر ”مسیحائی“سے زیادہ ”کمائی“ میں مصروف ہیں۔۔تمھارے تعلیم و انصاف کے ادارے، تھانے، کچہری اور ہسپتال انسان کو بچانے کے بجائے مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔۔آج انسان، انسان کو آسانی کے بجائے، محض اپنی انا اور وقتی مفادات کی خاطر،مشکلات اور پریشانی میں مبتلا کرکے خوشی محسوس کر رہے ہیں۔۔۔انسان ہو کر ایک انسان سے اس قدربے وفائی۔۔!!! تم مجھے بے توقیر اور بے حس نہ سمجھو۔ میں بھی تمہارے وجود کا ہی ایک حصہ ہوں۔اگر اک ذرا غور سے دیکھو تو میں تم ہی ہوں۔۔تم اپنے دائرہ کار میں اپنے حصہ کی عبرت لے کر خود کو سنوارو، میں اپنے حصے کاشکر ادا کرتا ہوں۔۔۔!

تبصرے بند ہیں.