پاکستان اسرائیل۔۔حساس آلات کی خریداری

87

میں دو دن تک یہ دیکھتا رہا کہ شائد کوئی تردید آئے لیکن کسی نے تردید نہیں کی۔ ایسا نہیں کہ معاملہ ان کی نگاہ سے اوجھل ہے انہیں علم ہے اور بخوبی علم ہے۔ گزشتہ ماہ سندھ سے ایک ہی خاندان کے پانچ افراد کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ اسرائیل گئے تھے کیونکہ وہ پاکستان کے پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کرنے کے اہل نہیں تھے۔ کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ انہوں نے اسرائیل کا سفر پاکستان کے پاسپورٹ پر نہیں کیا تھا بلکہ کسی اور دستاویزات کے ذریعے کیا تھا۔ گرفتار تو اسرائیل کو کرنا چاہیے تھا کہ وہ جعلی دستاویزات پر ان کے ملک میں داخل ہوئے ہیں لیکن پاکستان نے انہیں گرفتار کر لیا۔ ویسے کیا کوئی مجھے وہ قانون بتا سکتا ہے جس کے تحت اسرائیل کا سفر کرنا خلاف جرم ہے۔ ویسے یہ جرم پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ بہت پہلے مولانا اجمل قادری صاحب نے انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ ایک وفد لے کر اسرائیل گئے تھے انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ بہت سے لوگ اسرائیل کا سفر کرتے ہیں۔ اصل میں وہ بیت المقدس جاتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے کئی پروازیں اپنے مسافر اسرائیل کے راستے لے کر جا رہی ہیں۔
میں دو دن تک اس انتظار میں رہا کہ اسرائیل کے اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر کی تردید سامنے آئے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں اور حساس ادارے اسرائیل کے تیار کردہ آلات استعمال کر رہے ہیں۔ ایک طرف ہم اسرائیل کا سفر کرنے والوں کو گرفتار کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارے سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی ہم باہمی تجارت کرتے ہیں تو پاکستان کی حساس ایجنسیاں کیسے اسرائیلی ساختہ آلات استعمال کر رہی ہیں۔ کس قانون کے تحت ایسا ہو رہا ہے؟ اسرائیلی اخبار نے
کہا ہے کہ پاکستان کی ایف آئی اے اور پولیس شہریوں کے موبائیل فونز کو ہیک کرنے کے لیے اسرائیلی کمپنی سیل برائٹ کا نظام استعمال کر رہی ہیں اور پاکستان نے یہ نظام سیل برائٹ سنگاپور سے خریدا ہے۔ یہ انتہائی مہنگا جاسوسی کا نظام ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ بذریعہ بٹھنڈا اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور کاروباری معاملات شروع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور کس نے یہ اجازت دی ہے کہ اس قسم کا ہارڈوئیر خریدا جائے اور دوسرا اس کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی کہ لوگوں کے موبائیل فونز تک رسائی حاصل کرنے کا نظام وضع کیا جائے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن اہلکاروں کے نگرانی میں یہ نظام کام کر رہا ہے وہ اپنی مرضی اور منشا سے کسی بھی شخص کے ذاتی فون میں گھس کر سب کچھ ریکارڈ کر رہے ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک آڈیو لیکس کا سلسلہ شروع ہوا تھا تو بھی یہ بات سامنے آئی تھی کہ کون ہے جو یہ سب کچھ استعمال کر رہا ہے اور ریکارڈنگ کر رہا ہے۔ اسرائیلی اخبار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ٹیلی برائٹ کا یہ نظام فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی ، کے پی پولیس، پنجاب پولیس اور سندھ پولیس کے زیر استعمال ہے۔
بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نظام کو دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے استعمال میں لایا جا رہا ہے لیکن اس قسم کا کوئی میکنزم موجود نہیں کہ اس کا استعمال عام شہریوں کے خلاف روکا جا سکے کیونکہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر کسی کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ صحافی اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے افراد خاص طور پر اس کی زد میں آ سکتے ہیں بلکہ اخبار کے مطابق وہ یہ نظام کسی عام فرد یا ادارے کو فروخت نہیں کرتے بلکہ وہ یہ نظام صرف حکومتی ایجنسیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اخبار نے اس کمپنی پر تنقید کی ہے کہ انسانی حقوق کی پاسداری اور آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے تو اسے یہ نظام کیوں فراہم کیا گیا ہے۔ سیل برائٹ کے اس نظام کے لیے ہونے والے سودے وزارت دفاع مانیٹر کرتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی وزارت دفاع کو اس سودے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ہم نے اسرائیل کے اخبار کا موقف آپ کے سامنے رکھا ہے لیکن معاملات کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھنا ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ امریکہ اور بھارت نے چین کی کمپنی ہواوئے کے موبائیل فون کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اور یہ کام اس خدشے کے پیش نظر کیا گیا تھا کہ چینی ساختہ اس فون کی مدد سے چین حساس معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ ویسے بھی کون جانتا ہے کہ کسی بھی موبائیل فون میں استعمال ہونے والے پرزہ جات میں کونسی چپ جاسوسی کے مقاصد کے لیے فٹ کی گئی ہے۔ پاکستان اسرائیل کا یہ حساس نظام استعمال کر رہا ہے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پاکستان کی حساس معلومات اسرائیل تک نہیں پہنچ رہی۔ اسرائیل کی وزارت دفاع کو اس سودے پر اعتراض کرنا چاہیے تھا لیکن وہ خاموش ہے۔ اخبار نے یہ اشارے بھی دیئے ہیں کہ اسرائیل اپنے حساس معلومات کو بطور ڈپلومیسی بھی استعمال کر رہا ہے اور اس کی مثال یہ دی ہے کہ اسرائیل نے جاسوسی کا ایک نظام پیگاسس متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور مراکش کو فروخت کیا اور اس امید پر کیا کہ ان ممالک سے اس کے سفارتی تعلقات بحال ہوجائیں گے۔ مراکش پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکا تھا، بعد میں متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اب سعودی عرب کے حوالے سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ دونوں ملک جلد ہی سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ہیں۔
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ فون کالز کا فرانزک کروائیں تو پاکستان فرانزک کے لیے جو نظام استعمال کر رہا ہے وہ سیل برائٹ کا ہی تیار کردہ ہے۔ 2013 کی برطانوی حکومت کی شائع کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار کا کہنا ہے کہ ماضی میں اسرائیل نے پاکستان کو اسلحہ فروخت کیا ہے جس میں الیکٹرانک وار فئیر سسٹم، ریڈارز اور ایڈوانسڈ فائیٹر جیٹ سسٹم شامل ہے۔ 2020 کے بعد سیل برائٹ جو نظام بنا رہی ہے اس کی ایکسپورٹ وزارت دفاع کے منظوری سے مشروط قرار پائی ہے۔

تبصرے بند ہیں.