پاکستان کا بحیثیت مجموعی اپنا ایک منفرد’پیراڈائم‘، ’پیٹرن‘ یا ’ماڈل‘ ہے جسے پاک فوج کے سربراہ کے کردار کو نکال کر دیکھا، سمجھا اور بیان نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے ہر فوجی سربراہ نے ہماری تاریخ، سیاست،جغرافیے، معیشت اور معاشرت پر اہم اثرات مرتب کئے ہیں اور میں اپنے ہر فوجی سربراہ کو اسی پیراڈائم میں سٹڈی کرتا ہوں۔ میں اپنی اس تحریر کے آغاز میں ہی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس تحریر اور تجزئیے کے دواسلوب موجود ہوتے ہیں جن میں سے ایک آئیڈیل سیچویشن ہے اور دوسری آئیڈیل۔ ہم لکھنے والوں کا المیہ یہ ہے کہ ہم ان میں سے کسی ایک کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ ہم خواب دیکھتے ہیں تو شاعر بن جاتے ہیں اور زمینی حقائق کو مکمل طور پر نظراندا ز کردیتے ہیں اور جب زمینی حقائق کا زہر انڈیلنا شروع کرتے ہیں تو ان خوابوں کو بھول جاتے ہیں جن سے امید جنم لیتی ہے، جدوجہد کا راستہ نکلتا ہے اور زندگی چلتی ہے۔ سعد اللہ شاہ نے کہا، ’خوابوں سے دلنواز حقیقت نہیں ہے کوئی، یہ بھی نہ ہو تو درد کادرمان بھی نہ ہو‘، اسی غزل کا خوبصورت ترین شعر بھی سن لیجئے، ’مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو، کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو‘۔میں اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے پاس یہی عوام، سیاستدان، عدلیہ، فوج اور افسران ہیں اورہمیں اسی مٹی پرایڑھیاں رگڑنی ہیں، یہیں سے چشمہ نکالنا ہے۔
میں، برادرم نصراللہ ملک کے ساتھ دنیا بھر کے معاملات پر بحث کرتا خانیوال پہنچا تھا جہاں ارشاد احمد عارف، حبیب اکرم، اجمل جامی، اعجاز ڈوگرسمیت دیگر کی معیت ملی۔ ہم سب کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ہم سب مختلف الخیال ہیں۔ ہم نے اس سے آگے پیرووال جانا تھا جہاں وزیراعظم اور سپہ سالار فوجی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام سوا دو ہزار ایکڑ پر مشتمل کارپوریٹ فارمنگ کے ایک بڑے منصوبے کا افتتاح کر رہے تھے۔ میں اس سے پہلے برملا کہہ چکا کہ آج میرے سامنے میری ایک بالکل نئی فوج ہے جو اپنے ملک کے دفاع، تعمیر اور ترقی کے حوالے سے ایک بالکل مختلف اپروچ رکھتی ہے۔ اس میں بنیادی تبدیلی اس وقت آئی تھی جب ڈیڑھ، دو برس پہلے سیکٹر کمانڈرز کی سطح پر فیصلہ ہوا تھا کہ ہماری فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی اور پھر اس فیصلے کو اس طرح نبھایا گیا کہ آج کوئی سیاستدان یا جج یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سیاسی اور عدالتی فیصلے کے لئے اسی کسی طرف سے کوئی فون موصول ہوا ہو یا کسی نے اسے آکر کوئی ہدایت کی ہو۔ میں اس غیرجانبداری کی عملی گواہیاں دیکھتا ہوں کہ آج ہمارے جی ایچ کیو، جناح ہاؤس اور شہداء کی یادگاروں پر حملے کرنے والوں کوحیران کن ریلیف ملتے ہیں۔ ان حملوں کا ماحول بنانے والوں، ان کی منصوبہ بندی کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کو رہائیاں ملتی ہیں حالانکہ ہمارے عدالتی ضوابط اور روایات میں ایسی دفعات میں برس ہا برس ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں برملا کہتا ہوں کہ یہ فوج کی غیر جانبداری ہی تھی کہ نو مئی کے واقعات سے پہلے پی ٹی آئی کے جو بھی لوگ گرفتار ہوتے تھے وہ واپسی پربے ہودہ الزام لگاتے تھے، وکٹری کا نشان بناتے تھے اور پھر وہ ملک سے فرار بھی ہوجاتے تھے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ فوج اس وقت غیر جانبدار نہیں ہے وہ نومئی کے واقعات کی سنگینی اور اس پر پاک فوج کے ’میچور رسپانس‘ کو سمجھنے میں ناکام ہو رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر پاک فوج جنرل عاصم منیر کی قیادت میں آئین اور اخلاقیات پر سختی سے کاربند نہ ہوتی تو چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار سے محرومی کا بدلہ لینے کے لئے ملک میں مارشل لا لگوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میں اپنی کہی ہوئی بات پھر دہرا دیتا ہوں کہ اگر بارہ اکتوبر ننانوے کی رات میاں نواز شریف اسمبلیاں توڑنے پر رضامند ہوجاتے تو اس وقت بھی ملک ایک مارشل لا سے بچ سکتا تھا۔ہمیں اپنی دوستیوں، دشمنیوں سے بالاتر ہو کے واقعات کو اس کے درست پیرائے میں دیکھنے اور بیان کرنے کی جرأت پیدا کرنی چاہئے۔
ہم جب خانیوال پہنچے تو یہ ہمارے لئے ایک خوبصورت موسم تھا۔ راستے میں موٹروے پر ہمیں موسلادھار بارش بھی ملی اور پھر پیرووال میں سورج بھی ہمارے ساتھ بادلوں میں آنکھ مچولی کھیلتا رہا مگر ہمیں بتایا گیا کہ اسی موسم کی وجہ سے وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا ہیلی کاپٹر یہاں نہیں پہنچ پائے گا۔ ایک لمحے کے لئے ہم نے سمجھا کہ ہمارا یہ سفر اپنے مقاصد میں ادھورا رہ گیا مگر ایسا نہیں ہوا اور آرمی چیف اعلان کے مطابق پہنچ گئے۔ میں صحافتی تجربے کی بنیاد پر سمجھتا ہوں کہ سیاسی اور فوجی قیادت پاکستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈے پر متفق اور متحد ہو چکی ہے۔ میں نے بہت ساری خبروں سے دیکھا، جانا اور جانچا ہے کہ یہ اتحادکسی اقتدار یا لوٹ مار کے لئے نہیں بلکہ وطن کی بقا، سالمیت اور تحفظ کے لئے ہے، جی ہاں، فوج اور حکومت کو ایک پیج پر ہونا چاہئے مگر وہ پیج محض طاقت کے حصول اور اقتدار کے دوام کا نہیں بلکہ اس پاکستان کا ہونا چاہئے جسے آرمی چیف نے بغیر کسی ابہام کے کہا کہ یہ ہماری ماں ہے اور اگر کسی کی ماں دنیا والوں کی نظر میں کالی بھی ہو تو وہ اسے کالی نہیں کہہ سکتا اور یہ کہ اگر یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔ میں آرمی چیف کے الفاظ، انداز اور جذبات پر بعد میں بات کروں گا کہ اس سے پہلے اجمالی نوعیت کے کچھ موضوعات بہت ضروری ہیں۔ میں جب پیرووال پہنچ رہا تھا تو میرے سامنے اپنے ہی لکھے الفاظ تھے کہ پاک فوج نے دو ارادے کر لئے ہیں، پہلا ارادہ یہ ہے کہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے لئے امن کو بہرصورت یقینی بنانا ہے۔ میں نے کچھ دن پہلے پاک فوج کا افغانستان سے حملہ آوروں پر ردعمل دیکھا تو اس نے مجھے یقین دلایا کہ اب حقیقت میں سب سے پہلے پاکستان ہے۔ اب پاکستان اس بارے میں نہیں سوچتا کہ کون اس کے بارے کیا سوچتا ہے۔میرے اطلاعات کے مطابق افغانوں کو دوٹوک بتا دیا گیا ہے کہ ’وفا کرو گے وفا کریں گے جفا کرو گے جفا کریں گے، ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے‘۔
پاکستان کی ترقی کے لئے تین فیکٹرز بہت اہم ہیں جن میں سے سب سے پہلا امن و امان کا قیام ہے۔ پاک فوج اس سے پہلے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اس مشکل اور ناممکن ترین کام کو اتنی کم مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا چکی ہے کہ میرے خیال میں اندرونی شورش کے شکار بہت سارے ممالک کو ہماری فوج کے اس عزم اور عمل سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ امن تھا جس نے سی پیک کی راہ ہموار کی، موٹرویز بنیں، بجلی کے کارخانے لگے۔ دوسرا اہم ترین فیکٹر سیاسی استحکا م ہے، مان لیجئے، سیاسی استحکام برقرار رہتا تو پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار کو ریورس گیئر نہ لگتا۔ یہاں اہم ترین ایک ایسی حکومتی ٹیم کی ہونا بھی ہے جو سیاسی، مالی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کے ملک کے لئے کام کرے۔ میں نے پنجاب کے لئے وزیراعظم شہباز شریف کو دن رات محنت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پنجاب کوئی آئیڈیل صوبہ بن چکا ہے مگر بہرحال باقی تمام صوبوں سے بہت بہتر انفراسٹرکچر کا حامل ہے۔ میں نے خواجہ سعد رفیق کو ریلوے کے لئے کام کرتے ہوئے قریب سے دیکھا ہے۔ انہوں نے گذشتہ دور میں دم توڑتے ریلوے کی آمدن کو اٹھارہ ارب سے پچاس ارب تک پہنچایا اور میرے لئے یہ خوشگوار حیرت کی بات تھی کہ شیخ رشید وغیرہ کے بدترین دور کے بعد بھی اب اس برس ریلوے نے پھر اٹھان لی ہے اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریونیو باسٹھ ارب روپے حاصل کیا ہے، اب پی آئی اے نے ٹیک آف شروع کر دیا ہے۔ میں قائل ہوں کہ اگر محنت اور دیانت کے ساتھ کام کیا جائے تو معجزے برپا ہو سکتے ہیں اور ا س وقت وہ تمام فیکٹرز اکٹھے ہوچکے ہیں جو پاکستان کو ایشئن ٹائیگر بنا سکتے ہیں۔ میں نے وہاں جو تقریر سنی اور محسوس کی، میرے خیال میں اگر وہ من و عن ریلیز کر دی جائے تو انقلاب کی عوامی بنیاد بن جائے۔اس پر میرے کچھ ساتھیوں کے چہرے لٹکے ہوئے تھے، کیوں، اسے رہنے دیجئے۔ میں اب جنرل سید عاصم منیر کے اس خطاب کے بارے بات کروں گا جس میں الفاظ ہی نہیں تھے بلکہ ان الفاظ کے پیچھے بھی عزم، جوش اور جذبے کے کئی آتش فشاں تھے۔ (جاری ہے)
Prev Post
تبصرے بند ہیں.