ہائے اس زود پیشماں کا پیشماں ہونا

45

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ پر سخت رد عمل دیتے ہوئے امریکی صدر پر تنقید کی ہے۔ یہ مشترکہ اعلامیہ وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ سرکاری دورے کے موقع پر جاری ہوا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی مشترکہ اعلامیہ کے اس حصے کا نوٹس لیا ہے جس میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کا ذکر ہے۔ اس بات پر بھی تنقید کی گئی ہے کہ امریکہ فوجی ٹیکنالوجی کو انڈیا منتقل کرے گا۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا بہت ساتھ دیا ہے اس حوالے سے امریکہ کو پاکستان کے دوستانہ کردار کو فراموش نہیں کرنا چاہئے تھا۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت تھا جب نریندر مودی وزیر اعظم نہیں بنے تھے تو امریکہ نے مودی پر امریکہ آنے پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ گجرات کے مسلم کش فسادات میں ملوث تھے۔ سیاسی حلقوں میں خواجہ آصف کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ گجرات کے فسادات کے بعد جب مودی وزیراعظم تھے تو مودی غیر سرکاری دورے پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے ذاتی دعوت پر لاہور آئے اور نواز شریف کے ذاتی مہمان بنے تھے۔ تب خواجہ آصف کو یہ خیال کیوں نہ آیا تھا۔ مودی کے اس دورہ پاکستان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ بہت سارے وزرا حتیٰ کہ وزارت خارجہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کا خود امریکہ میں بھی بہت چرچا رہا۔ ریڈ کارپٹ استقبال ہوا۔ وہائٹ ہاؤس میں بہت پذیرائی ہوئی۔ جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس میں زیادہ تر روایتی باتیں ہیں۔ مگر دو تین ایسے نکات ہیں جن پر بھارتی عوام کو یقیناً بے انتہا خوشی ہوئی ہوگی۔ ایک نکتے کے مطابق بھارت کو امریکہ کا سب سے بڑا اور اہم پارٹنر قرار دیا گیا۔ دوسرے اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ امریکہ بھارت کو فوجی ٹیکنالوجی منتقل کرے گا اور تیسرے یہ کہ امریکہ اور بھارت نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے مزید اقدامات کرے۔ ساتھ ہی القاعدہ، لشکر طیبہ اور جیش محمد کی مذمت کی گئی۔ مشترکہ اعلامیہ 58 نکات پر مشتمل ہے۔۔ 32 ویں نکتے میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان پر پھر وہ ذمہ داریاں اور الزامات عائد کئے گئے ہیں جن کا اعادہ پہلے بھی امریکی انتظامیہ کرتی رہی ہے۔ اور اس کے لئے یقینا بھارت نے ہمیشہ بہت کام کیا ہے۔ اس سے پہلے 9/11 کے فوراً ”بعد صدر بش نے بھی لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی تنظیموں کے حوالے سے پاکستان پر الزامات لگائے تھے۔ پھر صدر اوبامہ نے اپنے دور اقتدار میں یہ تک دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تو امریکہ پاکستان کے اندر جا کر ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے گا۔ اس لئے امریکہ کی یہ پالیسی نئی نہیں ہے۔ ایک اور بات یہ کہ مشترکہ اعلامیہ میں جن دہشت گرد تنظیموں کا نام لیا گیا ہے ان پر پاکستان میں بھی پابندی ہے اور اقوام متحدہ نے بھی دہشت گرد تنظیمیں قراردیا ہوا ہے۔
آئیے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر اس مشترکہ اعلامیہ میں ایسی بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کی بھرپور جد وجہد کر رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت اس لئے بھی بہت قریب آ رہے ہیں کہ اس خطے کی سیاست ہی ایسی ہے کہ امریکہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے۔ سب سے پہلے تو افغانستان کا معاملہ ہے۔ دوسرے چین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کو چین نے کم کر دیا ہے اور دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرلیے۔ پھر چین اور پاکستان کے درمیان سی پیک کا منصوبہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان کوئی معاہدہ بھی نہیں ہو پا رہا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب پاکستان پر دباؤ ہو کہ وہ چین کے اس قدر قریب نہ ہو جائے کہ امریکہ کے مفاد کو دھچکا پہنچے۔ یہ بات میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جب جب امریکہ میں ڈیموکریٹک گورنمنٹ آئی ہے پاکستان سے اس کے تعلقات زیادہ کشیدہ رہے ہیں جبکہ ری پبلکن حکومت پاکستان سے مقابلتاً اچھے مراسم رکھتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کے تعلقات پاکستان سے بہت اچھے رہے ہیں۔ جب سے بائیڈن حکومت آئی ہے پاکستان سے تعلقات مثالی نہیں ہوئے بلکہ دیکھا جائے تو بائیڈن انتظامیہ میں بھارتی نژاد امریکیوں کی بہتات بھی ہے۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد صدر امریکہ نے کم و بیش تمام ممالک سے فون پر ہی سہی گفتگو کی سوائے پاکستان کے۔
ان وجوہات کے علاوہ ایک اور اہم بات ہے کہ سفارتی تعلقات کا کسی ملک کی اندرونی سیاست سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت نہ صرف معاشی تباہی پھیلتی جا رہی ہے بلکہ سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے۔ موجودہ حکومت اس وقت ایک اپوزیشن سیاستداں کو منظر سے ہٹانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ ملک میں عام انتخابات سے اس لئے گھبرا رہی ہے کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو وہ اپوزیشن لیڈر کی مقبولیت کو ختم نہیں کر سکے گی۔ اور یہی خوف اس حکومت سے سارے غیر آئینی اقدامات کرا رہا ہے۔ عدلیہ جیسے مقدس ادارے میں ججز کی آپس میں اتنی کشمکش ہے کہ ججز ایک دوسرے کے خلاف کھلم کھلا الزامات لگا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے اور عسکری ادارے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے۔ ایسے امریکہ کیا کسی بھی ملک کا پاکستان کے قریب آنا ممکن نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ سیاسی رسہ کشی کو فوراً ختم کر کے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔۔ پہلے ملک کا وقار خود بحال کریں پھر دوسروں سے خیر کی توقع کی جائے۔
چلتے چلتے ایک بات ضرور کرنی چاہئے کہ امریکی ذرائع ابلاغ بھی بھارت پر اعتراضات کر رہے ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔ خود سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیاجا رہا ہے اس سے خدشہ ہے کہ بھارت کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے صدر بائیڈن کو مشورہ دیا کہ وہ مودی سے اس ضمن میں سنجیدہ گفتگو کریں۔ اس لحاظ سے پاکستان کے پاس اچھا موقع ہے کہ آپس کے سیاسی جھگڑوں کو ملک کے مفاد میں ختم کرے اور سب سے پہلے دنیا کی نظر میں اپنا وقار بحال کرے۔

تبصرے بند ہیں.