حج:اللہ کے مہمانوں کی میزبانی

80

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جد انبیاء کہا جاتا ہے اور دنیا کے مقدس ترین شہر مکہ المکرمہ کو بالعموم او رخطہئ سعودی عرب کو بالخصوص حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا کا اثر ہے جو انہوں نے بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر کے موقع پر اپنے رب سے مانگی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطے پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ تعمیر کعبہ کے وقت آپؑ نے رب ذوالجلال سے فریاد کی تھی کہ اے اللہ میں نے اپنی اولاد ایک ایسے بنجر و بیابان میں لا بسائی ہے جہاں نہ پانی ہے اور نہ کوئی فصل اُگتی ہے لہٰذا تو اسے امن کا شہر بنا دے امن سے مراد جان کا تحفظ بھی ہے اور بھوک و افلاس سے بے فکری بھی۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سعودی عرب کی تیل کی آمدنی میں 10 فیصد سالانہ اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف سعودی عرب کو حج اور عمرہ سے اس سال تقریباً 200 بلین ڈالر کا ریونیو متوقع ہے۔ سعودی عرب کی بے پناہ آمدنی میں ہونے والے حالیہ اضافے کے پیچھے موجودہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت کا اہم کردار ہے۔ شاہ سلمان 2015ء میں بر سر اقتدار آئے تھے ان کے بیٹے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ 8 سال کے مختصر عرصے میں سعودی معیشت میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ 2015ء تک حج اور عمرہ کی سالانہ آمدنی 100 بلین ڈالر تھی جسے دنیا نہایت قابل رشک سمجھتی تھی۔ 8 سال میں اس میں 50 فیصد کا اضافہ ایک ایسی حکومت نے کیا ہے جس کا تعلق جمہوریت سے نہیں بلکہ بادشاہت سے ہے جہاں نسل در نسل اقتدار کی منتقلی ہوتی ہے۔ اب آگے سنیے سعودی حکومت کا حج عمرہ ویژن یہ ہے کہ 2030ء تک حج عمرہ آمدنی 150 بلین ڈالر سے 350 ڈالر ہو جائے گی کیونکہ گزشتہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس آمدنی میں ہر سال 7 فیصد شرح سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس وقت سالانہ 20 لاکھ مسلمان سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں۔ سعودی حکومت نے حج عمرہ کے انفراسٹرکچر میں انقلابی توسیع کا عمل شروع کر رکھا ہے اور 2030ء کا ویژن یہ ہے کہ زائرین کی موجودہ تعداد جو 20 لاکھ ہے وہ 2030 ء تک 30 لاکھ ہو جائے گی اتنے وسیع پیمانے پر زائرین کی میزبانی کرنا آسان نہیں ہے لیکن محمد بن سلمان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کو 2030 تک تیل پر انحصار سے مکمل آزاد کر دینا ہے یعنی یہ لوگ تیل پر انحصار کو زیرو کر دیں گے اور سعودی حکومت کی پٹرول کی فروخت بند بھی ہو جائے تو ملک پھر بھی چلتا رہے گا۔
سعودی عرب کی ٹورازم مارکیٹ کے سائز یا حجم کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ الابراج کے نام سے جاری ایک بہت بڑے ہوٹل کی تعمیر جاری ہے جس میں 12 ٹاور ہوں گے یہ فور اور فائیو سٹار ہوٹل کی سہولیات ہوں گی الابراج 45 منزلہ بلڈنگ ہو گی جس میں 10 ہزار مہمانوں کی گنجائش ہو گی اس کے اندر 70 ریسٹورنٹ ہوں گے، 4 ہیلی پیڈز ہوں گے اور سب سے اوپر والے 5 فلور سعودی شاہی خاندان کے لیے مخصوص کیے جائیں گے اس ہوٹل میں ٹھہرنے والوں کا 10 دن کا خرچہ 18ہزار ڈالر سے 45 ہزار ڈالر کے درمیان ہو گا جو کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں یہ 50 لاکھ سے ڈیڑھ کروڑ کے درمیان کا حج عمرہ پیکیج ہو گا جو کھرب پتی امراء یا بادشاہوں یا سربراہان مملکت کے لیے ہو گا۔
لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا 2030ء تک سعودی حکومت کے توسیعی منصوبوں کے نتیجے میں حج اور عمرہ کا خرچ کم ہو پائے گا۔ بدقسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ حج او ر عمرہ کی لاگت میں ہر سال ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ عالمی افراط زر اور مہنگائی ہے جس سے ایئر لائن ٹکٹ مہنگے ہو جاتے ہیں رہائش اور کھانے پینے کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔ سعودی حکومت نے عمرہ کمپنیوں
پر جو ٹیکس لگا رکھے ہیں ان میں سروس چارجز جو پہلے 5 فیصد تھے اب 15 فیصد ہو چکے ہیں جسے وہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس یا VAT کہتے ہیں اسے پاکستان میں ہم GST کہتے ہیں سعودی حکومت چاہے تو حج اور عمرہ کو ٹیکس فری کر سکتی ہے مگر ایسا ممکن نہیں بلکہ سعودی عرب نے غریب مسلمان ممالک کی غیر مشروط امداد کا پروگرام ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور مصر جیسے ممالک کو مشکلات کا سامنا ہے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب آنے والے دہائی میں علاقائی طور پر بہت بڑی طاقت بننے جا رہا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ایران اور شام کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے ہیں یمن کے ساتھ بھی صلح کا امکان ہے جبکہ چائنا کے ساتھ سفارتی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
سعودی عرب کی موجودہ حکومت کے معاشی استحکام اور سفارتی محاذوں پر کارکردگی کو پاکستان میں اکثر Under Estimate کیا جاتا ہے اور سب سے بڑا اعتراض ان کے نظام حکومت یعنی بادشاہت پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بادشاہت کو ایک گالی بنا کر پیش کیا جاتا ہے کیونکہ ہمیں اپنی جمہوریت پر بڑا فخر ہے مگر ہماری گزشتہ نصف صدی کی جمہوریت نے عوام کو جس طرح روٹی اور آٹے کی لائنوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے اس کا موازنہ غیر جمہوری نظام سے کریں تو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اگر بادشاہت میں کسی ایک پراجیکٹ کی آمدنی 8 سال کے عرصے میں 100 بلین سے 150 بلین اور اگلے مزید 7 سال میں 150 بلین سے 350 بلین ہو سکتی ہے تو ہماری آسمان سے اتری جمہوریت کیا عوام کو عزت کی روٹی بھی نہیں دے سکتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی ہر سال سب سے زیادہ حج اور عمرے کرتے ہیں اس سے عمومی تاثر تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہماری قوم میں خدا خوفی، تقویٰ اور ایمانداری کا لیول دوسروں سے زیادہ ہونا چاہیے تھا مگر یہاں معاملہ اور ہے۔ ہمارے خطے کے لوگ احساس گناہ کی شدت میں کمی کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی کے لیے عمرہ کرتے ہیں یہاں تک تو بہت اچھی بات ہے مگر پرابلم یہ ہے کہ یہ توبہ تائب ہو کر واپس آتے ہیں تو پھر اسی ڈگر پر چل پڑتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کثرت سے عمرہ کرنے کے باوجود یہاں معاشرتی تبدیلی نہیں آتی او ر عمرہ کو محض ایک لانڈری یا ڈرائی کلین کا درجہ حاصل ہے۔ اس کے برعکس دوسری انتہا پر مذہب سے بے زار ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ جو پیسے عمرہ پر خرچ کیے ہیں اس کے بجائے کسی غریب کی مدد کر دیتے یہ ایک خطرناک دلیل ہے جس کا مقصد شعائر اسلام کی توہین یا تمسخر ہے۔ ہاں اس کا اطلاق اس 5 سٹا رعمرہ پر ہو سکتا ہے جو کروڑ ڈیڑھ کروڑ میں ہوتا ہے اس فہرست میں تو ہمارے حکمران ہی شامل ہو سکتے ہیں جو فری عمرہ کرنے کے عادی ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ عمرہ پر جائیں تو بیت اللہ کے سامنے سیلفی بنانے سے گریز کریں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ساری کاوش ضائع ہو جائے اور آپ کو اس کی خبر بھی نہ ہو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش حکومت نے حج اخراجات میں کمی کے لیے بحری جہاز کے ذریعے حج کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس سے حج اخراجات آدھے رہ جائیں گے۔ پاکستان اس پر کب سوچے گا۔

تبصرے بند ہیں.