اس منظر نامے سے واضح ہے کہ اب اس علاقے میں امریکہ کے پاس بہت زیادہ گنجائش نہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور مغرب کی لابیاں اور صیہونی گروپ دوسرے طریقے سے متحرک ہیں۔اس کی ایک واضح مثال آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ انتہائی غلط اور قابل مذمت رویہ ہے۔ یہ بات امریکہ بھی جانتا ہے اور چین بھی، اسی لیے اب حکومت پاکستان نے پلان بی پر بھی کام شروع کردیا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلیے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل قائم کردی گئی۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ پچھلے کچھ عرصے سے امریکی حکومت بھی پاکستان کے معاملات پر تبصرہ کرنے کے حوالے سے بہت محتاط ہوچکی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ نے پی ٹی آئی کے حق میں بیانات دینے اور خطوط لکھنے والے ارکان کانگرس کے عمل کو ان کا ذاتی فعل قرار دیتے ہوئے سیاست سمیت پاکستان کے اندرونی معاملات پر کسی قسم کا تبصرہ کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ میں موجود سازشی عناصر اپنے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہے لیکن ان کی اوقات اتنی ہی رہ گئی ہے کہ اب ہر طرف سے دھتکارے جارہے ہیں، 9 مئی کے واقعات کے بعد آخری بڑا وار عمران خان کو رہا کرکے کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی طے کیا گیا کہ توہین عدالت کیس میں حکومت کو فارغ کرنے کا حکم جاری کردیا جائے۔ پلان تو بن گیا مگر جیسے ہی مولانا فضل الرحمن نے ایک دن کے نوٹس پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے سپریم کورٹ کے باہر احتجاجی اجتماع کی کال دی، اسلام آباد میں سروں کا سمندر امڈ آیا تو بندیال کورٹ ساری بہادری بھول گئی اور اکڑ نکل گئی۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے کہ اس روز سٹیج پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے دو سابق صدور سمیت کئی وکلا رہنما موجود تھے۔ پیپلز پارٹی کی نمائندگی ہی پیپلز لائرز فورم کے سربراہ نئیر بخاری ایڈووکیٹ نے کی۔ موجودہ عدالتی نظام نے ریاست کو پورا پورا موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ اس جعلی بھرم کو توڑ دے کہ آئین و قانون توڑنے اور کرپشن کرنے پر ججوں کے خلاف کارروائی کرکے انہیں سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ آئین ری
رائٹ کرکے آئین شکنی کی گئی، بینچ فکسنگ بدترین بدعنوانی ہے، اپنے ہی خلاف مقدمات خود سن کر عدالتی اصولوں اور اخلاقیات کا جائزہ نکال دیا گیا، ایک پارٹی کے حق میں فیصلے دے کر انصاف کی دھجیاں بکھیر دیں، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ہوں یا جسٹس محسن کیانی جس کے خلاف بھی مالی ہیر پھیر کا ریفرنس آئے اسے دبا کر کرپشن کو کھلم کھلا فروغ دیا جارہا ہے۔ یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ ہم خیال آئین کی پروا کررہے ہیں نہ قانون کی، اخلاقیات کی نہ ہی عدالتی قواعد و ضوابط کی، کرپشن کوئی مسئلہ ہے نہ ہی بینچ فکسنگ تو پھر ریاست کو بھی سوچنا ہوگا کہ ایک ادارے میں موجود با اختیار افراد فریق بن کر بے لگام ہورہے ہیں تو انہیں قابو کرنے کے لیے غیر ضروری مصلحتیں اور آئین و قانون کے نام پر رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کب تک کیا جاسکتا ہے۔ ان عناصر کو آئینی عہدوں پر بیٹھ کر ملک میں افراتفری مچانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ سوال تو یہ ہے جرائم کرنے پر جج جیل کیوں نہیں جا سکتے۔ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کو حوالات کی سیر کرائی جاسکتی مگر جسٹس جاوید اقبال نامی گھٹیا اور بدعنوان ریٹائر جج کے خلاف کارروائی ہونے لگے تو لاہور ہائی کورٹ دفاع کے لیے کود پڑتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بدنام زمانہ چیف جسٹس ر ثاقب نثار کے کرپٹ بیٹے کو بچانے کے لیے گارڈ کا کام کررہی ہے۔ مراعات کے لحاظ سے دنیا کے ٹاپ 10 ممالک میں شامل ہونے والی پاکستانی عدلیہ کارکردگی کے لحاظ سے 139 ویں نمبر پر ہے۔ عمران دار ججوں کے دن رات سیاست میں گھسے رہنے کے سبب آج عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ساڑھے 54ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔سپریم کورٹ کی15جون تک تیار کردہ رپورٹ کے مطابق زیر التوا مقدمات کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔سپریم کورٹ میں زیر التوا سول پیٹیشنز کی تعداد29ہزار 557تک پہنچ گئی،زیر التوا سول اپیلوں کی تعداد9ہزار 758ہوگئی جبکہ زیر التوا فوجداری درخواستوں کی تعداد8ہزار 915 ہے۔ رپورٹ کے مطابق زیر التو نظر ثانی درخواستوں کی تعداد ایک ہزار438،زیر التوا فوجداری اپیلوں کی تعداد ایک ہزار62اورزیر التوا آئینی درخواستیں 130ہیں۔سپریم کورٹ میں 25ازخود نوٹس زیر التوا ہیں جبکہ رپورٹ کے مطابق ایک ریفرنس بھی زیر التوا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ نیوٹرل ہوچکی لیکن پچھلے افسروں کا ڈالا گند کس نے صاف کرنا ہے۔ عدلیہ میں“ میجر سرجری“ کیے بغیر بغیر ملک میں استحکام نہیں آ سکتا۔ سنہرا موقع تو یہ ہے کہ عمران دار ججوں نے مواقع بھی خود ہی فراہم کردئیے ہیں۔ باجوہ، فیض سیاسی نیٹ ورک کی طرح ان دونوں کا عدالتی نیٹ ورک بھی توڑنا ہوگا۔حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہوں گے۔ سڑکوں پر آنے کا راستہ تو کھلا ہی ہے۔ وہ منظر بھی دیکھنے والا ہوگا جب ہم خیال ججوں کے حامی وکلا احتجاج کریں گے اور انہیں جواب دینے کے لیے ایسی عدالتوں کے بالکل سامنے دفاع پاکستان کونسل جیسی ”متحرک“ تنظیموں کے کیمپ لگے ہونگے۔ (ختم شد)
Next Post
تبصرے بند ہیں.