پچھلے دنوں بزم اقبال لاہو رکے زیر اہتمام اقبال توسیعی لیکچروں کے سلسلے کے پہلے توسیعی لیکچر ”پاکستان میں اقبالیات کے پچھتر سال“ کا انعقاد ہوا۔ ناظم بزم اقبال ڈاکٹر تحسین فراقی نے بزم کا تعارف کراتے ہوئے توسیعی لیکچروں کے انعقاد کی غرض وغایت بیان کی اور فاضل مقرر کا تعارف کرایا۔
ڈاکٹر تحسین فراقی سرزمین پاکستان میں موجود گنے چنے افراد میں سے وہ ایک ہیں جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان پر دسترس رکھتے ہیں اور انہوں نے ان زبانوں کے ادب کا گہرا مطالعہ بھی کررکھا ہے۔اقبالؒ پر ان کے مضامین پر مشتمل کتابیں جہات اقبال اور اقبال، چند نئے مباحث کے نام سے ہیں۔ علامہ اقبال کی شخصیت و فن پر ان مضامین کوجو علامہ اقبال کی زندگی میں ہی منصہ شہود پر آئے آپ نقد اقبال، حیات اقبال میں کے نام سے ترتیب دے چکے ہیں۔
اقبالؒ شناس ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے لیکچرمیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک مختلف سطحوں میں ہونے والے کاموں کا ایک مجمل جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ اب تک اقبال پر ہزاروں کی تعداد میں کتابیں اور رسائل کے یادگار نمبر شائع ہوئے ہیں۔ ان میں شاندار اور کمزور ہر طرح کی مطبوعات شامل ہیں۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اقبالیات پر درجنوں کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں جن میں اصنافِ ادب، خطوطِ اقبال، کتابیاتِ اقبال، تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، جامعات میں اردو تحقیق، یاد نامہ لالہ صحرائی، اقبال کی طویل نظمیں: فکری و فنی مطالعہ، 1985ء کا اقبالیاتی ادب۔ ایک جائزہ، 1986ء کا اقبالیاتی ادب۔ ایک جائزہ، خطوطِ مودودی، اقبال: مسائل و مباحث، اقبالیات کے سو سال، تحقیقِ اقبالیات کے مآخذ اہم ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اقبالیات کی پروفیسر محترمہ بصیرہ عنبرین نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ اقبال کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں اور نقدو تحسین کا سلسلہ حیات اقبال میں شروع ہوچکا تھا۔ اقبال پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ اقبال اکادمی پاکستان میں بحیثیت ڈائریکٹر بھی کام کر چکی ہیں۔ محترمہ انتہائی مستعد، ہر دل عزیز اور اپنے کام کے ساتھ انتہائی مخلص رہیں۔ انہی کی انتھک محنت کی وجہ سے ادارہ کی کارکردگی میں بہتری آئی۔ان کی نگرانی میں اقبال اکادمی نے نہ صرف تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں بلکہ اقبال کے افکار و پیغام کو عالمی سطح پرروشناس کرانے میں بھی اپنا بہترین کردار ادا کیا۔
صدرِ محفل ڈاکٹر مظہر معین نے بتایا کہ اقبال کو عربی زبان و ادب سے بہت لگاؤ تھا۔ اقبال کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ نصابات میں اسلامیات کے نصاب کا جزو عربی قواعد کو بنایا جائے اور اسی طرح اردو کے نصاب کا جزو کلام اقبال اور فارسی قواعد بنائے جائیں۔
پاکستان کی تعمیر نو کیلئے اقبالؒ کا کلام کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبالؒ کو پڑھے اور سمجھے بغیر اسلامی نظریے اورپاکستان کی نظریاتی اساس سے آگاہی ممکن نہیں۔علامہ اقبال کے افکار کی ترویج کیلئے بزم اقبال نے بہت کام کیا ہے۔ بزم اقبال نے اپنے محدود مالی وسائل اور چند ملازمین کے تعاون سے علامہ اقبالؒ کے کلام، ان کے تصورات اور ان کی زندگی کے مختلف پہلووں کے بارے میں تقریباً 300 کتب شائع کی ہیں۔ بزم اقبال نے 1934 ء سے 1948 ء تک قائد اعظمؒ کے تمام بیانات اور تقاریر پر مشتمل چار جلدوں میں جامع کتاب اردو اور انگریزی میں شائع کی ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھی بزم اقبالؒ کے زیر انتظام دس کتب شائع ہوئیں۔ ان میں اقبالؒ صاحب حال، کلام اقبالؒ میں رزمیہ عناصر، اقبال ؒکے شاہین، حیات اقبالؒ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ادارہ نے دو جریدے”اقبال“ؒ شائع کیے۔
اجلاس میں ناظم بزم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ جولائی 2023 سے بزم کے زیر اہتمام طلبا و طالبات کے لیے فارسی اور عربی کی ہفتہ وار کلاسوں کا اجرا کیا جائے گا۔ یہ کلاسیں بلا معاوضہ ہوں گی۔
اجلاس کے اختتام پر ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر سے درخواست کی جائے کہ پنجاب یونیورسٹی میں پہلے سے مختلف مقامات پر آویزاں اقبال کے اشعار کو جو عرصہ پہلے ہٹا دیے گئے تھے‘ بحال کیا جائے۔ اجلاس میں اقبال دوستوں‘ اقبال شناسوں اور شعبہ اردو و شعبہ اقبالیات پنجاب یونیورسٹی‘ اوریئنٹل کالج کے طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.