اخبارات کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ نظریات اور تحریکوں کی بنیاد پر اخبارات کا آغاز کیا جاتا تھا۔ سرکارکے زیر اثر چھپنے والے اخبارات کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ پھر کچھ لوگوں نے اسے باقاعدہ کاروبار کی شکل دی اور اخبارات کی اشاعت کمرشل بنیادوں پر شروع ہو گئی۔ اس سیٹ اپ میں بھی پروفیشنل صحافیوں کا بہت زیادہ عمل دخل رہا، یہ وہ وقت تھا کہ جب اخبارات کو باقاعدہ طور پر ایک صنعت کا درجہ دینے کی بات ہونے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات اور ادارتی پالیسی کا کنٹرول پروفیشنل صحافیوں کے ہاتھوں سے نکلتا ہوا مالکان اور ٹیکنیکل ایکسپرٹس کے ہاتھوں میں چلا گیا یعنی اخبارات کے معاملات ایڈیٹرز کے ہاتھوں میں سے نکل کر ڈائریکٹرز کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
میڈیا میں آنے والی تبدیلیوں کا طوفان یہاں رکا نہیں بلکہ جلد ہی الیکٹرانک اور بعد ازاں سوشل میڈیا نے ہر چیز پر قبضہ جما لیا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے آنے سے اخبارات سے متعلق کاروباری حضرات اور صحافت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے اور اسی شعبہ سے حاصل ہونے والی کمائی پر گھر چلانے والے صحافیوں کو خاصا نقصان پہنچا، اور اب یہ عالم ہے کہ اخبارات سے متعلق کاروبار کو ایک ڈوبتے ہوئے بحری جہاز سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ اور وہ صحافی حضرات جنہیں صحافت کے علاوہ کچھ کرنا ہی نہیں آتا، یا وہ کچھ اور کرنا ہی نہیں چاہتے شدید قسم کی مشکلات کا شکار ہیں۔ اگرچہ تمام تر غیر موافق حالات کے باوجود کچھ ادارے اس صنعت کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن آنے والے دنوں میں حالات کے بہتر ہونے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔
اخباری صنعت کے زوال پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت کا معیار بھی اب وہ نہیں رہا جو چند سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ نوجوانوں کا زیادہ رجحان الیکٹرانک یا سوشل میڈیا کی جانب ہے اور پرنٹ میڈیا کی ترجیح کم سے کم تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ خاص طور پر خواتین کا تو اس جانب رجحان نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔بہت پرانی بات نہیں کہ جب پروفیسر افضل توصیف، کشور ناہید، بشریٰ رحمن اور زاہدہ حنا جیسے بڑے اور معتبر نام کالم نویسی سے منسلک تھے لیکن ان کے بعد کی لاٹ میں دیکھا جائے تو، اگرچہ کالم نویسی تو کئی خواتین کر رہی ہیں لیکن، پروفیشل کالم نویس صرف سعدیہ قریشی ہی نظر آتی ہیں۔
کئی سال پر محیط سعدیہ قریشی کا یہ سفر پروفیشنل خواتین صحافیوں کے لیے ایک مثال ہے۔ چند روز قبل مختلف اخبارات میں چھپنے والی تحریروں پر مشتمل انکی کتاب، ’کیا لوگ تھے‘ بھی مارکیٹ میں آ گئی۔سننے میں تو یہ آتا تھا کہ اخبار بینی کے ساتھ ساتھ کتب بینی کا شوق بھی زوال پذیر ہے لیکن پبلشر عبدالستار عاصم صاحب کے مطابق تو مذکورہ کتاب نے اس تاثر کی بھی نفی کر ڈالی ہے۔
یقینا یہ اس کتاب کی اہمیت ہی ہو گی کہ چند روز قبل قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ان کے آڈیٹوریم میں ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی جس میں ملک کے نامور صحافیوں کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے عبدالستار عاصم صاحب، عامر خاکوانی صاحب، حمیدہ شاہین صاحبہ، حسین مجروح صاحب،قاسم علی شاہ صاحب، سلمان غنی صاحب، سلمیٰ اعوان صاحبہ اور مجیب الرحمن شامی صاحب نے خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر عائشہ عظیم نے ادا کیے۔
ویسے تو یہ ایک بھرپور تقریب تھی لیکن تکنیکی اعتبار سے ایک کمی نظر ضرور نظر آئی۔ تنقید برائے تنقید تو یقینا ایک غیر معقول بات ہے لیکن تنقید برائے بہتری صحافت اور ادب کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ کتاب پر بات کرنے کا مطلب مصنف کی تعریف اور حوصلہ افزائی تو ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا تنقیدی جائزہ بھی ضرور لیا جانا چاہیے تھا کہ مصنفہ اپنی آئندہ تصانیف میں کس طرح مزید بہتری اور نکھار لا سکتی ہیں۔
بہر کیف اگرچہ میں تو بہت کم کتابیں پڑھتا ہوں، لیکن یہ کتاب تو میں نے بھی پڑھی ہے۔ یقینا یہ ایک بہت اچھی اور دلچسپ کتاب ہے۔ اس میں سعدیہ قریشی صاحبہ نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ان مشاہر کا ذکر کیا ہے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انہوں نے سیاست، صحافت، ادب،شاعری، موسیقی، سوشل سروس فن کی دنیا سے تعلق رکھنے مشاہر کے بارے میں اپنی تحریروں کو اس کتاب میں شامل کیا ہے لیکن اگر انہوں نے کتاب مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہی تھا تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ سپورٹس، آرکیٹیکچر، خطاطی اور پینٹنگ وغیرہ کے لیجنڈز سے متعلق تحریروں کو بھی اس کتاب میں شامل کرتیں تاکہ اسے مکمل طور پر قومی ہیروز سے متعلق ایک کتاب قرار دیا جا سکتا۔ چونکہ کتاب تو بہت تیزی سے بک رہی ہے اور امید ہے کہ موجودہ ایڈیشن جلد ہی ختم ہو جائے گا لہٰذا یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مصنفہ کتاب کے دوسرے ایڈیشن کو ترتیب دیتے ہوئے اس تجویز پر بھی غور کریں گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.