بدلتے موسم کا اندازہ لگانا

60

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بہت سے لوگ آسمان کا رنگ اور ہواؤں کا رخ محسوس کرتے ہوئے موسم کی تبدیلی کا اندازہ لگا لیتے تھے ٹھیک اُسی طرح بہت سی سیاسی شخصیات بھی ایسی ہیں جو بدلتے سیاسی ماحول کو وقت سے پہلے بھانپ لیتے ہیں ایسی شخصیات میں سے ایک شخصیت چوہدری سرور بھی ہیں۔میں آپ کو تھوڑا ماضی کی طرف لے جانا چاہوں گی جب چوہدری سرور (ن) لیگ میں تھے اور گورنر کے عہدے پہ فائز تھے اُس وقت اہم عہدے پہ ہونے کے باوجود اُنہوں نے نہ صرف عہدہ چھوڑا بلکہ پارٹی بھی چھوڑ دی اوریہ کہہ دیا کہ میں ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ایک کرپٹ پارٹی کا ساتھ نہیں دے سکتا اور پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی ان کو پی ٹی آئی نے وارملی ویلکم بھی کیا۔
ابھی (ن)لیگ چھوڑے کچھ روز ہی گزرے تھے کہ(ن)لیگ کا تختہ ہی اُلٹ گیا پانامہ کیس سامنے آیا نواز شریف کو وزات عظمی سے ہٹا دیا گیا اور ساری جماعت ہل کر رہ گئی مگر چوہدری سرور صاحب کو بخوبی اندازہ تھا کہ آنے والا وقت پی ٹی آئی کا ہی ہے اور جلد پی ٹی آئی میں رہ کر اُنہوں نے تیزی سے اپنے گروپ کو سٹرونگ کیا اور برادری ازم کو پروموٹ کیا اور پی ٹی آئی کے تمام وہ ممبر جو ان کی برادری سے تعلق رکھتے تھے اُن کو اہم عہدوں پہ بھی فائز کیا،بہت سے حلقوں سے ٹکٹس بھی الاٹ کی گئیں پھر اقتدار کا دور شروع ہوا تو اقتدار میں رہ کر پنجاب کے گورنر کے عہدے پہ فائز ہو کر ایک بار پھر سے پنجاب پہ راج کیااور اپنی ہی برادری کے لوگوں کو بہت سے سرکاری عہدوں سے نوازا۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام حالات و واقعات ایک بار پھر سے دُہرائے گئے پی ٹی آئی میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھانپتے ہوئے دو ماہ پہلے ہی یہ (ق)لیگ کی چھتری تلے بیٹھ گئے پارٹی بدل لینے کے بعد وہ ہر بات اور ہر عمل جو اقتدار میں بیٹھ کے کیے فیصلے اُن سب سے بری الزمہ ہوگئے نہ تو
اُن کا ذکر ہوتا ہے نہ ہی اُن پہ احتساب کی تلوار لٹکی عین ٹھیک ماضی کی طرح وہ محفوظ ہوگئے۔
ایک ماہ پہلے چوہدری پر ویز الٰہی کوپی ٹی آئی کے عہدے سے نوازا اُنہیں پنجاب کا پارٹی صدرمنتخب کیا گیا یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نہایت وضع دار شخصیت اور سیاست کو گہرائی سے جانچنے والے وہ کیسے مغالطے میں رہ گئے اور اُن کی گرفتاری کا عمل تو درست ہے کہ احتساب ہونا چاہیے مگر انداز درست نہ تھا۔
پرویز الٰہی پہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزمان ایک غیرملکی کمپنی کو دو ارب 90 کروڑ روپے کی ادائیگی میں 12کروڑ روپے ترقیاتی اسکیموں میں کک بیکس لینے کے الزام میں بھی مقدمہ درج تھا۔اب ایک بار پھر سے میں اپنی بات دہراتی چلوں کہ اگر احتساب کا عمل اگر شروع ہو ہی چُکا ہے تو احتساب سب کے لیے یکساں ہونے چاہیے وہ چاہے پی پی پی ہو پی ٹی آئی ہو یا پھر (ن) لیگ کیونکہ جب تک احتساب کرتے ہوئے سخت سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک کرپشن کا خاتمہ نہ ہو سکے گا۔ قومی احتساب بیورو جو 16نومبر 1999میں پرویز مشرف کی طرف سے قائم کیا گیا اس ادارے کا مقصد آئینی طور پہ تحقیقات کرنے،انکوائری کرنے،مالی بدانتظامی،اقتصادی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اور مقدمات کی ہدایت کرنے والے افراد کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ مگر ان ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے اگر یہ بات کی جائے تو غلط نہ ہوگی کہ آج تک یہ ادارہ سیاست کی ہی بھینٹ چڑھا ہے۔جو بھی جماعت اقتدار میں آئی ہے اُس نے پچھلی جماعتوں کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے کیسز کی بھرمار کی مگر آج تک کبھی یہ بات سُننے کو نہیں ملی کہ اس ادارے نے کبھی اقتصادی دہشت گردی کو کنٹرول کرتے ہوئے کوئی پیسہ ریکور کرکے حکومتی خزانے میں جمع کروایا ہو۔ آج تک نیب سیاست ہی کی بھینٹ چڑھا اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اسے ایک دوسرے پہ کیسز کرکے بلیک میل کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ اسی طرح عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں بھی صرف یہی دو باتیں رکھیں کہ میں چھوڑوں گا نہیں،میں ان کو مونچھوں سے گھسیٹوں گا مگر کرپشن کو پیسہ ریکور نہیں کیا صورتحال وہی دکھائی دیتی ہے چور بھی کہے چور چور،عمران خان کے اقتدار سے پہلے کا فارن فندنگ کیس چلا آرہا ہے مگر اس کیس کو یونہی لٹکا رہنے دیا،اس کیس کے بعد القادر ٹرسٹ کیس جس میں برطانیہ سے 19کروڑ پاؤنڈ کی غیر قانونی منتقلی،اس کے بعد ایک اور دعوی سامنے آیا کہ انڈیا نے 100سے 200کروڑ مودی سرکار نے عمران خان کو فنڈ دئیے اس فنڈ کو دینے کا مقصد تھا اپنی ہی آرمی کے خلاف بولیں اور یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے عمران خان و جو پیسے دئیے اُس کی مد میں اُن کے 10ہزار سے 12ہزار کروڑ جو کشمیر پہ لگاتے تھے وہ بچ گئے اور وہ ترقیاتی کاموں پہ خرچ ہوئے۔
اتنے سیریس چارجز کے بعد عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ شاید ان پہ پابندی عائد ہو جائیں مگر میں تو یہ کہوں گی کہ اگر فارن فنڈنگ کیس میں ڈھیل نہ دکھائی جاتی تو معاملات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ اب ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہی کہوں گی کہ اب جو کچھ ہوا جس طرح ملک گیر پُر تشدد احتجاج ہوئے ان کے بعد ان تمام کیسز پہ سیریس ایکشن ہو تاکہ پھر سے کوئی سیاسی پارٹی ہو غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بنے۔ اب موجودہ صورتحال میں تو پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما پارٹی کو الوداع کر گئے ہیں جو رہ گئے تھے کچھ گرفتار اور پرویز خٹک نے بھی پارٹی کو بائے بائے کہہ دیا۔اب صرف سب کی نظریں شاہ محمود قریشی پہ ٹکی ہیں جن کے ساتھ بار بار مختلف لوگوں کی ملاقاتیں بھی ہورہی ہیں۔
اس لیے قبل از وقت یہ بات کہنا درست نہیں کہ یہ ترین جماعت کا حصہ ہونگے کیونکہ پی ٹی آئی کو جس بری طرح سے توڑا گیا ہے اس کو پھر سے اس کے وجود کو قائم کرنے میں وقت لگے گا ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں مذاکرات ہونے سے کوئی بات بن جائے کیونکہ صرف شاہ محمود قریشی بیشک ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں مگر صرف ان کی ہی شخصیت اگر کہا جائے کہ پی ٹی آئی کے تشخص کو پھر سے بحال کر دیں گے تو ممکن نہ ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.