جون اور جولائی کے مہینے پوری قوم کے لیے شدید گرمی کا پیغام تو لاتے ہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انفرادی اور اجتماعی معاشی ہلچل بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ اگر میں اپنی ذاتی مثال ہی دوں تو انہیں مہینوں میں روٹین کے اخراجات کے علاوہ پراپرٹی ٹیکس، انکم ٹیکس، گاڑی کا ٹیکس جانے کون کون سے ٹیکسوں کا طوفان آ جاتا ہے۔واپڈا والے بھی اس مہینہ میں اضافی بل بھیج کر کلوزنگ میں اپنے معاملات سیدھے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی ہم جیسے مڈل کلاس لوگ جو پہلے ہی مشکل سے مہینہ کا خرچ پورا کر رہے ہوتے ہیں وہ شدید قسم کے اضافی دباؤ میں آ جاتے ہیں۔
دوسرا تحفہ ہمیں بجٹ کی صورت میں حکومت کی جانب سے ملتا ہے۔ حکومت جو تگڑے لوگوں سے تو ٹیکس وصول کرنے کی ہمت اور صلاحیت رکھتی نہیں لیکن ہم جیسے معصوم پرندوں پر ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔
اس سال آنے ولا بجٹ جانے کس کس طریقے سے ہماری مشکلات میں اضافہ کرے گا۔سوچا کہ جانے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کے علم میں ہو یا نہ ہو، اس لیے میں ان کے گوش گزار کر دوں کہ اس وقت غریب آدمی کی جو حالت ہو چکی ہے اس میں چائے اور سگریٹ تو خیر ایک عیاشی بن چکی ہے ہے، اس کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ ے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں اس کامزید خون نچوڑنا تو شائد ممکن نہ ہو لیکن حکومت کے سفاک اور بے رحم رویے کی تسکین کے لیے یہ ضرور ممکن ہے کہ خون نچوڑنے میں ناکامی کی صورت میں اس کے جسم کا گوشت کاٹ لیا جائے۔
حکومت ہو یا اپوزیشن، عوام ہوں یا خواص، پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ایک بات پر تو سبھی ہمیشہ متفق نظر آتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو جانے کیوں اسے حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ ملک میں کالا دھن رکھنے والے بڑے بڑے سرمایا داروں کے لیے تو مختلف حکومتوں کے دور میں متعدد بار ایمنسٹی سکیم لائی جا چکی ہے لیکن افسوس کوئی ایمنسٹی سکیم ایسی نہیں آئی کہ جس کا فائدہ غریبوں اور بے روزگاروں کو پہنچے۔
ملک میں بجٹ کی آمد آمد ہے اور ہمارے وزیر خزانہ صاحب در در پھر کر تجاویز اکٹھا کر رہے ہیں۔ اگر ان کی طبعت پر گراں نہ گزرے تو میں بھی انہیں مفت میں ایک مشورہ دینا چاہوں گا۔ اگرچہ میری اس تجویز سے سرمایہ داروں کو براہ راست اور غریبوں اور بے روزگاروں کو بلاواسطہ فائدہ پہنچنے کی امید ہے لیکن اس پر غورکیا جائے گا تو سب سے زیادہ فائدہ حکومت کا ہی نظر آئے گا۔
اسحاق ڈار کے لیے میری تجویز ہے کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو ملک میں صنعتکاری اور سرمایہ کاری کے لیے پرکشش مواقع فراہم کیے جائیں۔ یہ مواقع کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیے جائیں کہ جو صنعت یا ادارہ جتنے زیادہ لوگوں کو روزگار فراہم کرے گا اسے نہ صرف ٹیکس میں اتنا ہی فائدہ پہنچایا جائے گا بلکہ اس سلسلہ میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے ذرائع بھی کسی حد تک نہیں پوچھے جائیں گے۔
اس سلسلہ میں اگر حکومت سمجھے کہ انہیں ٹیکس کی مد میں نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا تو عملی طور پر شائد ایسا نہ ہو۔
پہلی بات تو یہ کہ جو ٹیکس پہلے ہی وصول نہیں ہو رہا اگر وہ آئندہ بھی کچھ عرصہ تک وصول نہ ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ حکومت پہلے سے ہی ان ڈائرئکٹ ٹیکسیشن کی مد میں اتنے پیسے اکٹھا کر رہی ہے، اگر لوگوں کی آمدنی کے ذرائع بڑھیں گے تو یقینا وہ ان پیسوں کو خرچ بھی کریں گے اور اس طرح حکومت کے ٹیکس اکٹھا کرنے کے ٹارکٹ بڑھیں گے اور متوقع نقصان کم ہو گا۔
مجھے حیرت ہے کہ حکومت ہر وقت اس بات کا رونا روتی رہتی ہے کہ ملک میں ٹیکس فائلرز کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس تعداد میں اضافہ کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاتی۔ اگر حکومت فیصلہ کر لے کہ کوئی بھی شہری یا دیہی جائیداد بیچنے یا خریدنے والے کا فائیلر ہونا ضرورہے، اس کے علاوہ کاروں کی خرید و فرخت، ایک حد سے زائد یوٹیلٹی بلز، بڑے بڑے سکولوں کی فیسوں اور بیرن ملک سفر کرنے کے لیے ٹکٹ کی خرید پر بھی اسی قسم کی شرط لگا دی جائے تو دیکھیں کہ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں کس حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
اس کے علاوہ میری حکومت کو تجویزہو گی کہ جائیداوں اور گاڑیوں وغیرہ کی ٹرانسفر پر عائد غیر ضروری ٹیکس ختم کیے جا ئیں تاکہ اس قسم کے کاموں میں تیزی آسکے۔ واضع رہے کہ صرف کسی ایک پراپرٹی کی ٹرانسفر میں ہی جانے کتنے لوگوں کا روزگار لگا ہوتا ہے اس کے علاوہ اگر ٹرانسفرز کا عمل زیادہ ہو گا تو یقینا ٹیکس بھی زیادہ اکٹھا ہو گا۔
افسوس کہ ہم آج بھی ٹیکس اکٹھا کرنے کے سالہا سال پرانے طریقوں پر ہی اٹکے ہوئے ہیں اور کچھ نئے تجربات کر کے ٹیکس بیس کو بڑھانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کچھ معاملات میں نئے تجزبات کرتے ہوئے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ٹیکس وصول کرنے جیسی پالسیوں کو ختم کرکے عوام دوست ماحول پیدا کریں گے اور روائتی طریقوں سے اکٹھا کیے جانے والے ٹیکسوں میں کمی لاتے ہوئے ٹیکس بیس بڑھائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لاتے ہوئے حکومت کے محصولات اکٹھا کرنے کے ٹارگٹ کو پورا کرا کیا جا سکے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.