دنیا ضمیر کا صفحہ پھاڑ چکی ہے۔ معیشت کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا آج کی دنیا میں۔ سو بھارت جیسا جنونی دنیا بھر کی 20 معاشی طاقتوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں عوام کا گلا گھونٹ کر اس پر G-20 کے رنگ برنگے بینر سجا کر میزبانی کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔ آنے والے مہمان سری نگر کے مرغزاروں، زعفران زاروں، ڈل جھیل کے مناظر کے بیچ معاشی پالیسی سازی طلب امور، باہمی تعاون، و دیگر باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کے دورچلے۔ سری نگر مرکز ہے، کشمیری عوام کے حقوق کا گلا گھونٹنے، 75 سالوں میں ڈھائی لاکھ مسلمانوں کو شہید کرنے، خواتین کی بے حرمتی، پلیٹ بندوقوں سے کشمیری نوجوانوں بچوں کو بینائی سے محروم کرنے، قید و بند کی صعوبتوں سے آبادی کے معتدبہ حصے کو دو چار کرنے کے جرائم کا۔ حقائق کھولے جائیں تو 10 لاکھ بھارتی فوج کے بوٹوں تلے سسکتی آبادی کے بیچوں بیچ روس، آسٹریلیا، انڈونیشا، کینیڈا، نرم ملائم پر امن تأثر دیتا جاپان، اٹلی، جرمنی، فرانس، امریکا، برطانیہ امارات جیسے ممالک شریک ہوئے۔ چین، سعودی عرب، ترکی، مصر نے شمولیت سے انکار کیا۔ امریکا وبرطانیہ نے منافقانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ چین کے ساتھ لداخ اور پاکستان کے ساتھ کشمیر پر تنازع دونوں ممالک کے انکارکاباعث بنا۔ یورپی یونین نے بھی سوال اٹھانے پر آئیں بائیں شائیں کرکے جان چھڑالی۔ یہ تمام ممالک دنیا کا 85 فی صد جی ڈی پی اور 75 فی صد عالمی تجارت، جب کہ دنیا کی دو تہائی آبادی کی نمایندی کرتے، بے ضمیری کی منڈیر پر چڑھے بیٹھے سری نگر کی گھٹی گھٹی آہوں کراہوں کے لیے بہرے،ہیں اندھے ہیں، گونگے ہیں۔ ان سے توقع عبث ہے۔ انسانی حقوق کے لیے انڈونیشا سے تو دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی تیمور حقیر عیسائی اقلیت کے حقوق کے نام پر فوراً الگ کروالیتے ہیں۔ سوڈان کے حصے بخرے کرنے میں ہینگ پھٹکڑی نہیں لگتی۔ مگر دنیا میں ایکا ہے مسلمانوں پر حقوقِ انسانی کے اطلاق نہ کرنے کا۔ سو کشمیر سسک رہا ہے۔ پاکستان احتجاج کناں تو ہے مگر اسے اپنی ڈال دی گئی ہے۔
عمران خان وائرس میں پاکستان تپ پُھنک رہا ہے۔ اسے ایسے دن اپنی پوری تاریخ میں دیکھنے کو نہ ملے تھے جو 9 مئی نے پورے ملک کو دن میں تارے دکھادیے۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ بھارت کے حوصلے اور بڑھ گئے۔ کشمیر پر ظلم کی رات اور گہری کیوں نہ ہوتی۔ کشمیری ایک نعرہ ایمانی غیرت میں بھر کر بھارتی فوج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لگاتے تھے۔ وہ نعرہ پاکستان کے عوام اور حکومت، اس کے وجود اور نظریے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھارتی شکست (1965ء) کی نشانیوں کو جلاتے ہوئے عمرانی ٹائیگروں نے لگایا۔ ہم چھین کے لیں گے آزادی! کس سے؟ پاکستان سے؟ اور اب خود گرفتاریوں سے بچتے پھر رہے ہیں،کپتان سمیت۔ ’میں کیہڑے پاسے جاواں؟‘ کیفیت میں گرفتارا!
ملک بننے کے بعد پاکستان کی بقاء کی جنگ کفر کے مقابل مسلم پاکستان میں لڑی گئی۔ جس پر ایوب خان نے اپنی سیکولرازم بالائے طاق رکھ کر کلمہ طیبہ پڑھ کر عوام کو بھارت کے کفریہ عزائم کے خلاف اٹھا کھڑا کیا تھا۔ جس جنگ میں اول آخر حوالہ قومیت، پاکستانیت سے بڑھ کر ایمان، اسلام کا تھا۔ اللہ کی مدد اترتی دیکھی گئی تھی۔ وہ ایم ایم عالم جو قبل ازیں شراب تک پی گزرتے تھے، اس جنگ میں غیرت
میں بھر کر جب اڑان بھری، ایک منٹ میں پانچ بھارتی طیاروں کو مار پھینکا اور کل نو بھارتی طیارے گراکر ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ انہوں نے آخری سانس تک اسے اللہ اور اس کے ملائکہ کی مدد سے منسوب کیا۔ تائب ہوئے، اللہ نے ایمان سے انہیں مالامال کیا۔ اسلامی پاکستان کے خواب کو سینے سے لگائے بیٹھے اور اسی پراللہ کے حضور لوٹ گئے۔ روس کے خلاف افغانستان کے شیروں کا ساتھ دینے کیلئے وہاں بھی جہاد فی سبیل اللہ کے جذبے سے گئے۔ (یاد رہے کہ راقمہ کے زوج محترم سے ان کا نہایت قرب اور محبت کا تعلق تھا۔) اس عظیم پاکستانی کے جذبہ ایمانی کی نشانی، ان کے جہازوں کو 9 مئی کو خصوصیت سے نشانہ بنانے والوں میں کون سا جذبہ ٹھاٹھیں ماررہا تھا؟ حق و باطل کی اصل جنگ (مشرف کی متنازعہ امریکی جنگ کے برعکس) کی نشانیوں پر غیظ وغضب برسانے والے کس کی آنکھیں اور دل ٹھنڈے کررہے تھے؟ کون نہیں جانتا کہ افغانستان کے خلاف جنگ مسلط کرنے میں پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے اب ایٹمی پاکستان دجالی مغرب (بھارت کے علاوہ) کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتا ہے۔ اسے اندر سے کھوکھلا کرکے، آئی ایم ایف کے قدموں میں لاچاری سے بھیک طلب بناڈالنے کا ایجنڈا اب پورا کیاجارہا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں ناتجربہ کاری اور پیسہ اڑانے کے ہاتھوں معیشت جس طرح تباہ ہوئی، گزشتہ سال بھر میں آتش زنی سے مسلسل ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرکے اس کی بربادی کا مزید سامان تحریک انصاف نے کیا۔ اسٹیٹ بینک نے دہائی دی ہے کہ سیاسی کھینچا تانی مسائل کو بڑھا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیں دیوالیہ کرنے کے درپے امریکا خود دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ (آئی ایم ایف ہمیں رقوم کی اقساط دینے میں قصداً دیر کررہا ہے امریکی تھپکی پر۔) 70لاکھ ملازمتیں امریکا میں ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اور وہ خود شدید معاشی مخمصے کا شکار ہے۔
عمران خان اس مشکل وقت میں کسے پکاررہا ہے؟ دباؤ کہاں سے ہم پر آرہا ہے؟ حقائق کھل گئے۔ 66 امریکی کانگریس مین جنہیں امریکا میں تحریک انصاف کے قادیانی اور بے دین حلقے حقوق انسانی کی دہائیاں دے کر پکارتے رہے اور انہوں نے پھر جمہوریت کے راگ الاپ کر پاکستان پر دباؤ ڈالا۔(کینیڈا، برطانیہ سے بھی۔) عمران خان خود دن رات عالمی میڈیا کے دروازے کھٹکھٹاکر ہائے وائے پکاررہا ہے۔ خلیل زاد جو عمران خان کے ہم زلف (سابقہ ہی سہی) اور تقریباً ”خالہ زاد“ ٹھہرے، کیونکہ ان کی بیوی بھی یہودی ہے اور عمران خان کا سابقہ سسرال بھی۔ سو خلیل زاد (جن کی فاختہ افغانستان میں نہ اڑسکی) پاکستان کو ڈرا دھمکارہے ہیں کہ پاکستان میں عدم استحکام پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کردے گا، ان کے کہے کا کیا کہنا کہ دونوں حضرات کی رگ جاں پنجہئ یہود میں ہے۔ ہم یہ شکر ادا کریں پاکستان ان کے عزائم سے بال بال بچ گیاہے!
پاکستانی عوام مظلومیت کی انتہا پر ہیں۔ ایک ظالمانہ خون چوس نظام ان پر مسلط ہے جس میں اشرافیہ تو اشرفیوں سے تلتی ہے اور ان کیلئے زندگی کی سانسیں بحال رکھنا دوبھر ہے، عزت نفس اور دو وقت کی روٹی سے محروم۔ سفید ہاتھیوں کے اموال کی کہانیاں اور جائیدادیں اربوں کھربوں میں۔ دیکھ لیجئے۔ القادر ٹرسٹ ہو یا اس کے پس ِپردہ بھاری رقوم، مہنگی جائیدادیں، بڑے بڑے سیاسی بروکر اور مہرے، ہوش ربا ہے سب۔ادھر آئی ایم ایف کے قدموں میں رلتا پاکستانی۔ سبزی دال پھل سے محروم پیدل مارا مارا پھرتا پاکستانی۔ شاندار عدلیہ اور اس کی شاہانہ تنخواہیں،مراعات۔ سفید ہاتھیوں کے باڑے ہم مسکین پاکستانی پال رہے ہیں۔ کارکردگی افسران بالا کی دیکھنی ہو تو یہ خبر پڑھ لیجئے کہ واشنگٹن میں پاکستانی ملکیتی عمارات 4 سال سے خالی پڑی دھول چاٹ رہی ہیں۔لاکھوں ڈالر کرایہ مل جاتا۔ اگر یہ ان کی ذاتی عمارات ہوتیں تو کیا یہی بے نیازی برتی جاتی؟ یہی قومی مزاج ہے۔ انصافیوں نے قومی املاک، پرائی گاڑیاں، موٹرسائیکلیں جلا ڈالیں۔ اپنی گاڑی اپنا گھر۔؟ چنگاری بھی نہ چھوئے! یہ خالی پڑی عمارات 3 سال عمرانی حکومت اور موجودہ ایک سال کے بعد اب کرائے لگیں گی!
ذرا جھانک کر ہمسایہ ملک افغانستان دیکھ لیجئے۔ شریعت کے تابع افسران بالا۔ ان کے وزیراعظم، ججوں، وزراء کی تنخواہیں، گاڑیاں، مراعات کا موازنہ پاکستان سے کرکے دیکھئے۔ وہاں عوام بہرصورت اپنے افسروں سے زیادہ خوشحال ہیں۔ (خصوصاً این جی اوز اور امریکی وظیفہ خوار۔) علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی! شریعت کی حکمرانی، قیادتوں پر بھاری ہوتی ہے اور عنداللہ و عندالناس جواب دہی کے پھاٹک کھول دیتی ہے اور عوام کو لاڈلا بناکر رکھتی ہے۔ عمر فاروقؓ جیسے حکمرانوں کی راتوں کی نیندیں اڑادیتی اور انہیں عوام کی چوکیداری پر تحفظ پر پہرہ دار بنادیتی ہے!
آزمائش شرط ہے!
دل و نظر کو بدل کے دیکھو
بدل تو سکتا ہے اب بھی نقشہ
Prev Post
تبصرے بند ہیں.