اِن دنوں فیک نیوز کی باتیں اُتنی ہی عام ہیں جتنی مہنگائی، اُتنی ہی سستی ہیں جتنی بحث، اُتنی ہی خوف ناک ہیں جتنی وبائی بیماریاں۔ فیک نیوز کی تباہی گھروں سے لے کر ملکوں تک، سیاسی جماعتوں سے لے کر حکومتوں تک، چھوٹی مارکیٹوں کے کاروبار سے لے کر انٹرنیشنل سٹاک مارکیٹوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ فیک نیوز جدید ایجاد نہیں ہے۔ اس حوالے سے حیران کن دلچسپ تاریخی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ اب تک فیک نیوز کی سب سے پہلی مثال تقریباً تیرہ سو قبل مسیح میں ملتی ہے جب اُس وقت کے مشہور تیسرے فرعون بادشاہ ریمسس دی گریٹ نے موجودہ ترکی و شام کے اُس وقت کے قبائل ہیٹی ٹیز کے ساتھ کادیش کی جنگ میں ایک معاہدہ کیا۔ فرعون بادشاہ نے اپنے عوام کو یہ تاثر دیا کہ وہ معاہدے کے مطابق جنگ جیت چکا ہے۔ اُس نے اپنے اس دعوے کے حق میں پراپیگنڈہ کے طور پر اپنی سلطنت میں موجود تمام مقدس عمارتوں پر ایسے نقش و نگار بنائے جن سے یہ تاثر ملتا کہ بادشاہ ریمسس دی گریٹ دشمنوں کو شکست فاش دے رہا ہے جبکہ بعد میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق یہ حقیقت سامنے آئی کہ اُس معاہدے کے تحت فرعون بادشاہ نے اپنی بادشاہت بچانے کے عوض پسپائی اختیار کی۔ پرانی تاریخ میں فیک نیوز کی دوسری بڑی مثال ایک صدی قبل مسیح میں ملتی ہے جب روم کے تاریخی جنرل مارک انٹونی کے خلاف اُس کے مخالفین آکٹیوین نے روم کی سینیٹ میں جنرل مارک انٹونی کی ایک وصیت پیش کی۔ مخالفین کے مطابق یہ وصیت جنرل مارک انٹونی کی ہی تھی جس پر اُس کی مہر بھی ثبت ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اُن دنوں جنرل مارک انٹونی روم سے بہت دور مصر کے محاذ پر فتوحات حاصل کررہا تھا۔ مخالفین نے سینیٹ اراکین کو بھڑکایا کہ اِس وصیت میں جنرل مارک انٹونی نے لکھا ہے کہ اُس کی موت کے بعد روم کا تخت اُس کی مصری معشوقہ قلوپطرہ سے ہونے والی اُس کی اولاد کو ملے نیز یہ کہ اُس کی لاش کو مصری فرعونوں کے مقبرے میں رکھا جائے۔ مخالفین نے اس وصیت کی سینیٹ اراکین کے سامنے تشریح اس طرح کی کہ اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو منطقی طور پر قلوپطرہ روم کی ملکہ کہلائے گی۔ یہ پراپیگنڈہ عام ہونے کے بعد رومنز اپنے ہی بہادر اور پاپولر جنرل مارک انٹونی کے خلاف صف آراء ہوگئے اور اُسے غدار سمجھنے لگے کیونکہ فیک نیوز کے مطابق وہ اپنے ملک میں دفن بھی نہیں ہونا چاہتا تھا۔ جنرل مارک
انٹونی کے خلاف فیک نیوز کا سلسلہ یہاں بھی نہ رکا بلکہ اُس کے مخالفین نے میدان جنگ میں اُس تک یہ خبر پہنچائی کہ اُس کی مصری معشوقہ قلوپطرہ نے خودکشی کرلی ہے۔ اِس خبر سے وہ بہت دلبرداشتہ ہوا اور اُس نے خودکشی کرلی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض کے مطابق قلوپطرہ نے اپنے عاشق جنرل مارک انٹونی کو دھوکہ دیا اور خود یہ فیک نیوز پھیلائی کہ اُس نے خودکشی کرلی ہے۔ ایک امریکی اخبار نیویارک سن نے 1835ء میں یہ فیک نیوز چلائی کہ چاند پر مخلوق پائی جاتی ہے۔ اس
خبر کے ساتھ انہوں نے عجیب و غریب جانور کی خودساختہ تصویر بھی چھاپی۔ ایسا کرنے سے اُس اخبار کے قارئین میں بہت اضافہ ہوا۔ اگر ہم پاکستان میں دیکھیں تو ہمارا میڈیا بھی مختلف فیک نیوز چلاکر اپنی ریٹنگ میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ مندرجہ بالا سب فیک نیوز کے بارے میں ثابت ہوچکا ہے کہ یہ خبریں غلط تھیں۔ تاہم ابھی بہت سی ملکی اور بین الاقوامی فیک نیوز ایسی ہیں جنہیں غلط ثابت ہونا باقی ہے۔ اِن میں سے ایک 20جولائی 1969ء کو امریکی خلائی گاڑی کا چاند پر اترنا اور خلاباز نیل آرمسٹرانگ کا چاند پر چہل قدمی کرنا ہے۔ امریکہ کے اِس دعوے پر اب دیگر سائنس دانوں کے کچھ شکوک و شبہات سامنے آئے ہیں۔ منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کی فیک نیوز کے تحت پھانسی دے دی گئی جس کا اعتراف اب سب عدالتی قتل کے طور پر کرتے ہیں۔ پاکستان کے تین مرتبہ منتخب ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کو تینوں مرتبہ کرپشن کے ایک جیسے ہی الزامات لگا کر اقتدار سے الگ کردیا گیا۔ تینوں مرتبہ کے الزامات فیک نیوز ثابت ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اب تک سب سے زیادہ فیک نیوز پھیلانے اوران سے فائدہ اٹھانے کا سہرا عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کو جاتا ہے۔ عمران خان جس خبر کو پہلے مصدقہ خبر کہتے ہیں کچھ دنوں بعد وہ اُس کی خود ہی تردید کرتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں یوٹرن کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ عمران خان کے پیروکار اُن کی جانب سے پھیلائی گئی فیک نیوز پر اتنا یقین کرتے ہیں کہ خود عمران خان کے یوٹرن کے بعد بھی ان کے فالوورز اسی فیک نیوز کو آگے لے کر چلتے رہتے ہیں۔ اگر سروے کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ فیک نیوز پھیلانے اور فیک نیوز غلط ثابت ہو جانے کے باوجود بھی پی ٹی آئی اس سے فائدہ اٹھانے والی دنیا کی نمبر ایک جماعت بن جائے۔ شاید فیک نیوز کی تھیوری میں پی ٹی آئی نے ہی کامیابی سے یہ نیا اضافہ کیا ہے کہ فیک نیوز اگر غلط ثابت بھی ہو جائے تب بھی اس پر یقین کیا جاتا رہے۔ بہرحال اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیک نیوز بہت مؤثر ہتھیار ہے جو مدمقابل کو بارودی ہتھیار سے زیادہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.